سماج سے کٹ جانے کی قینچی
اگر کوئی بات حقائق کے خلاف سامنے آ جائے یا کوئی بات مزاج کے خلاف پیش آ جائے یا ایسے شخص سے ملاقات ہو جائے جس سے ذہن نہ ملتا ہو یا کوئی چیز وقت پر نہ مل پائے یا موقع کی ضرورت موقع پر نہ مل پائے تو ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ طبیعت میں جوش پیدا ہوتا ہے۔ مزاج میں تیزی اور گرمی آجاتی ہے۔ تیور بدل جاتے ہیں‘ پیشانی پر بل پڑ جاتے ہیں۔ آنکھیں غضبناک ہو جاتی ہیں۔ رگیں پھول جاتی ہیں۔ جی ہاں ایک دیوانی جذبہ نمودار ہوتا ہے۔ ہاں ہاں پاگل پن کا دورہ سا پڑ جاتا ہے۔ خفگی‘ ناراضگی ‘ برہمی اور طیش کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں انتقام کا ولولہ ہوتا ہے۔ اعصاب تن جاتے ہیں۔ عقل کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔ ذہن کام نہیں کرتا۔ دل کا جوش اُمڈ کر زبان اور ہاتھوں کے راستے بہہ پڑنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ شائستگی منہ چھپا لیتی ہے۔ وقار راستہ بدل لیتا ہے۔ متانت و سنجیدگی راستہ بھٹک جاتی ہے۔ آنکھوں کی شرم بغاوت پر اتر آتی ہے۔ حیاء اپنا لبادہ اُتار پھینکتی ہے۔ انسان اچھی صفات (اوصاف حمیدہ) کھو بیٹھتا ہے۔ ان سب کیفیات کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو اس مجموعے کو غصہ کہتے ہیں۔
غصہ (اکثر و بیشتر) حماقت سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے۔ جانتے ہو غصے کا مطلب کیا ہے۔ دوسروں کی غلطیوں کا اپنی ذات سے انتقام لینا۔ غصہ آپ کی عقل کا امتحان ہے۔ آپ کے صبر و ضبط کی جانچ ہے۔ آپ کی بردباری کی کسوٹی ہے۔ آپ کے مزاج کی پرکھ ہے۔ آپ کے عدل و انصاف کو آزمانے کا ذریعہ ہے۔ آپ کی کامیابی و ناکامی کی سند بھی ہے۔ آپ کی کمزوری کا اعلان بھی ہے۔ آپ کے تکبر کی پہچان بھی ہے۔ آپ کا حق کی قبولیت سے انکار بھی ہے۔ آپ کا مدمقابل کو ذلیل سمجھنے کی علامت بھی ہے۔ آپ کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی اذان بھی ہے۔ آپ کے غرور کا پیمانہ بھی ہے۔ آپ کے گھمنڈ کا پیالہ بھی ہے۔ آپ کی ذہنیت ناپنے کا تھرمامیٹر بھی ہے۔ لوگوں کی نفرت کھینچنے کا مقناطیس بھی ہے۔ لوگوں کی نگاہوں سے گر پڑنے کا وسیلہ بھی ہے۔ سماج سے کٹ جانے کی قینچی بھی ہے۔ بے یارومددگار رہ جانے کی تدبیر بھی ہے۔ اپنوں سے دور ہو جانے کا طریقہ بھی ہے۔ مایوسیت کے غار تک پہنچنے کا راستہ بھی ہے۔ بدنامیوں کے ڈول بھرتے رہنے کا کنواں بھی ہے۔ رسوائی کی موسلادھار بارش بھی ہے۔ ذلتوں کا امڈتا سیلاب بھی ہے۔ بدمزگیوں کا طوفان بھی ہے۔ رنجشوں کی آندھی بھی ہے۔ دشمنی کی چٹان بھی ہے۔ دشمنی کی چٹان بھی ہے۔ عداوتوں کا پہاڑ بھی ہے۔ رب ذوالجلال کے قہر کا داعی بھی ہے۔ عذاب الٰہی کی آمد کا پیغام بھی ہے۔ مصائب دنیا میں گرفتاری کا سمن بھی ہے۔ اخروی وبال میں پھنسنے کی چارج شیٹ بھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی مول لینے کا خطرہ بھی ہے۔ دربار خداوندی سے دھتکار دینے جانے کا خدشہ بھی ہے۔ آخرت میں مظلوم کا ہاتھ گریبان تک پہنچنے کا اندیشہ بھی ہے۔ آخر ت میں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کیے جانے کا خوف بھی ہے۔
غصہ نہ کیا کرو یہ ایک جبری کیفیت ہے جو اعتدال سے ہٹا دیتی ہے۔ اس کا استعمال ضرورت کے مواقع پر ضرورت کے مطابق ہی مفید ہے۔ اس اینٹی بائٹک دوا کا استعمال نہایت مجبوری کے عالم میں کم سے کم مقدار میں ہوتا ہے۔ انتہائی آسان کم طاقت کی دوائیوں سے خاطر خواہ فوائد نہ حاصل ہو سکنے کی صورت اور آپریشن تک پہنچنے کی نوبت کے درمیان اس دوا کا مرض اور مریض کی حیثیت و استعداد کے مطابق ضرورت کے بقدر مجبوری کی حالت میں عارضی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے استعمال کے لیے انتہائی ماہر ‘ حاذق‘ زیرک ‘ اپنے فن میں یکتا طبیب کی ضرورت ہے۔ جو پوری مہارت کے ساتھ اس کا اس طرح اور اتنا استعمال کرے کہ مرض دور ہو جائے اور مریض بچ جائے۔