بہترین صدقہ کیا ہے؟
بہترین صدقہ کیا ہے؟ اس کی کیفیت کیا ہے؟ کیا اس صدقہ کے لیے آدمی کا امیر کبیر ہونا ضروری ہے؟ کیا وہ مال ضرورت سے زائد ہو؟ یا فالتو چیز یا مال رکھا ہو تو اسے خرچ کیا جائے؟ اس سلسلے میں رسول ؐاللہ کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں:
چنانچہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ ہے؟
’’فرمایا:…یہ کہ تو صدقہ اس حال میں کرے کہ صحیح و تندرست ہو۔
مال کی کمی کے باعث تو اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
اور اسے کسی کاروبار میں لگا کر زیادہ (منافع) کما لینے کی امید ہو۔
اس وقت کا انتظار نہ کرے کہ جب جان نکلنے لگے۔تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دے دیا جائے یہ فلاں کو… ارے اس وقت یہ مال فلاں فلاں کو جانا ہی ہے۔‘‘ (مسلم شریف)
ایک اور حدیث میں وارد ہے‘ آپؐ نے فرمایا:
’’آدمی کہتا ہے کہ میرا مال‘ میرا مال‘ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کر دیا۔ یا اسے پہن کر پرانا کر دیا‘ یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا؟ (یاد رکھ) اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے۔‘‘ (مسلم شریف)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ارشادات میں یہ تربیت فرمائی ہے کہ اپنی ضروریات کو چھوڑ کر دوسروں کی ضرورت کو پورا کرنا اور صدقہ ایسے وقت میں کرنا جب پریشانی نہ ہو ‘ تندرست و توانا ہو اور مال موجود ہو اور ارادہ یہ ہوکہ اس کے ذریعے منافع کمانا ہے۔ مگر اللہ کی رضا کے پیش ِ نظر دوسروں کی حاجت برابری کی جائے۔ ورنہ بیماری و پریشانی میں تو ہر ایک صدقہ کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بیماری میں صدقہ کرنا دافع بلاء ہے۔ اور اس بات کو بھی واضح فرمایا کہ اصل آدمی کا مال وہ ہے جو اس نے اللہ کے راستے میں خرچ کیا ہو اور آگے بھیج دیا ہو۔ اسی طرح اپنی تنگی ترشی کے زمانے میں صدقہ و خیرات کرنا وہ بھی عادتاً کہ خوشحالی کے زمانے میں کرتے آئے ہوں‘ صدقہ کی اصل روح ہے۔
جب قران مجید کی سورۃ حدید کی آیت نمبر ۱۱ نازل ہوئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض دے؟ اچھا قرض تاکہ اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس کر دے اور اس کے لیے بہترین اجر ہے۔
صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے یہ آپؐ کی زبان سے سنا تو حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسولؐ اللہ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے؟
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں‘‘ اے ابودحداح تو انہوں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ تو مجھے دکھائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض دے دیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس باغ میں چھ سو کھجور کے درخت تھے۔ جب انہوں نے یہ بات اپنی زوجہ کو بتائی تو انہوں نے کہا: اے ابودحداح تم نے نفع کا سودا کیا ہے۔ پھر اپنے بچے اور سامان وغیرہ لے کر باغ سے نکل آئیں۔ کیونکہ ابودحداح کی رہائش بھی اسی باغ میں تھی۔
یہ تھی صحابہ کی جانثاری و ایثار اور بہترین صدقہ کہ وہ ہمیشہ آخرت کو دنیا کی زندگی پر ترجیح دیتے تھے۔ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا۔