ہمت اور جرأت کی مثال رقیہ

اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر روزانہ بتیس کلو میٹر تک سائیکل چلا کر گھروں میں کام کرتی ہیں


اگر انسان مشکل حالات سے نمٹنے کا تہیہ کر لے تو سماجی رکاوٹیں اور مفی رویے اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے۔ یہ سچ ثابت کر دکھایا ہے لاہور شہر سے تعلق رکھنے والی رقیہ بی بی نے، جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر روزانہ بتیس کلو میٹر تک سائیکل چلا کر گھروں میں کام کرتی ہیں۔ 38 سالہ رقیہ اپنے بچوں کو حلال کا لقمہ کھلانے کے لئے گزشتہ بیس سال سے سائیکل پر کام پر جار ہی ہیں ۔ ان کے شوہر مزدوری کرتے ہیں، انہیںکبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا جس کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا تھا، چنانچہ رقیہ بی بی نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا اور وہ2001ء سے گھروں میں کام کر رہی ہیں۔ رقیہ بی بی سائیکل پر کام پر جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنی سواری ہونے کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی بچ جاتا ہے اور وہ ملازمت کے مقام پر بھی وقت پر پہنچ جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں رکشے وغیرہ پر سفر کروں تو روزانہ تین سو روپے کرایہ لگے، میں یہ پیسے بچاتی ہوں اور انہیں بچوںکی پڑھائی پر خرچ کرتی ہوں۔ رقیہ بی بی کی سڑک پر سائیکل چلانے کی وجہ سے بے شمار مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے لیکن انہوں نے راستے میں لوگوں کے تنگ کرنے یا منفی رویوں کے باعث کبھی ہمت نہیں ہاری۔ اُن کا کہنا ہے کہ میں اُس وقت نہیں گھبرائی جب ہمیں کوئی ایک وقت کا کھانا بھی نہیں دیتا تھا۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں خواتین کا سائیکل چلانا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، اس بارے میں رقیہ کہتی ہیں کہ یہ ایک دقیانوسی سوچ ہے کیونکہ ان کے لیے سائیکل چلانا شوق نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ دوسرے ملکوں میں عورتیں ٹرک اور بڑ ی بڑی گاڑیاں تک چلاتی ہیں، حتیٰ کہ ہمارے اپنے ملک میں عورتیں پائلٹ بھی ہیں تو میرے سائیکل چلانے پر لوگوں کو کیوںاعتراض ہے؟ رقیہ کی اس ہمت اور جرأت کے پیچھے ان کے شوہر امجد کی حوصلہ افزائی کا بڑا کردار ہے۔ امجد کے تعاون کی بدولت وہ گھریلو روزگار کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ امجد کا کہنا ہے کہ ہم دونوں مل کر گھر کا نظام چلا رہے ہیں، اپنے بچوں کی پڑھائی اور اُن کے مستقبل کے لئے محنت کر رہے ہیں۔ رقیہ خود تو تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن وہ اپنے معاشی اور معاشرتی فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ گھرکو بہتر انداز میں چلانے کے لئے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ رقیہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب اپنے بچوں کے لئے کرتی ہیں اور اس کے لئے اگر انہیں ٹرک بھی چلانا پڑتا تو چلاتی۔ بچوں کی پڑھائی کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر پاکستان کی ہر ماں عزم کر لے تو وہ معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button