محنت اور کوشش کی عظیم مثال
باپسی سدھوا ایک پارسی خاتون ہیں۔ وہ پاکستان کے شہر لاہور کی رہنے والی ہیں۔ آج کل وہ ٹیکساس (امریکہ) کی یونیورسٹی آف ہوسٹن میں استاد ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کی لکھی ہوئی کتابیں (ناول) انٹرنیشنل سطح کے پبلشنگ اداروں میں چھپتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باپسی سدھوا کی رسمی تعلیم بالکل نہیں ہوئی۔ وہ اپنے وطن کے شہر لاہور کے ایک سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کر رہی تھیں کہ ان کو پولیو کی بیماری ہو گئی۔ ان کے والدین نے ان کے لیے باضابطہ تعلیم کو ناممکن سمجھ کر ان کو سکول سے اُٹھا لیا ۔ اس کے بعد وہ ٹیوٹر کے ذریعے اپنے گھر پر پڑھنے لگیں‘ مگر ٹیوٹر کا سلسلہ بھی زیادہ دن تک باقی نہیں رہا۔ اب باپسی سدھوا کا شوق ان کا رہنما تھا۔ وہ خود سے پڑھنے لگیں۔ وہ ہر وقت انگریزی کتابیں پڑھتی رہتیں۔ اپنے الفاظ میں وہ کبھی سیر نہ ہونے والی قاری (Voracius Reader)بن گئیں۔ آخر انہوں نے اپنی محنت سے یہ درجہ حاصل کر لیا کہ وہ انگریزی مضامین لکھنے لگیں۔ مگر دو سال تک یہ حال تھا کہ انہیں اپنے بھیجے ہوئے مضمون کے جواب میں صرف انکاری تحریریں (Rejection Slips)ملتی تھیں۔ ان کی پہلی کتاب کا مسودہ آٹھ سال تک ان کی الماری میں پڑا گرد آلود ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ان کو مایوسی کے دورے پڑنے لگے۔
آخرکار حالات بدلے ۔ ان کے مضامین باہر کے میگزینوں میں چھپنے لگے۔ اب وہ عالمی سطح پر پڑھی جانے والی انگریزی رائٹر بن چکی ہیں۔ رسمی ڈگری نہ ہونے کے باوجود وہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں تخلیقی تحریر (Creative Writing)کا مضمون پڑھا رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام علوم محنت کی درسگاہ میں پڑھائے جاتے ہیں۔ تمام تر ترقیاں محنت کی قیمت دے کر حاصل ہوتی ہیں اور محنت وہ چیز ہے جو ہر آدمی کو حاصل رہتی ہے۔ حتیٰ کہ اس آدمی کو بھی جس کو بیماری نے معذور بنا دیا ہو‘ جو کالج اور یونیورسٹی کی ڈگری لینے میں ناکام ثابت ہوا ہو۔ محنت ایک سرمایہ ہے جو کبھی کسی کے لیے ختم نہیں ہوتا۔