پاکیزہ خاتون کی عصمت کی قدروقیمت

مدینہ میں یہود مسلمانوں کے ساتھ رہتے تھے۔ انہیں حکمِ حجاب کا اترنا اور مسلمان عورتوں کا باپردہ چلنا پھرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ مسلم خواتین کے حلقے میں فساد اور عریانی کے بیج بونے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ تاہم ابھی تک وہ اپنی ان مذموم کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
ایک روز ایک مسلم عورت یہودِ بنی قینقاع کے بازار سے سودا سلف لینے آئی۔ وہ ایک عفت مآب اور باحجاب خا تون تھی۔ وہ وہاں کے ایک یہودی سنار کے پاس گئی اور اس کی دکان میں بیٹھ گئی۔ یہود اس کی پاکیزگی اور باپردگی دیکھ کر آگ بگولا ہو گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس خاتون کے دیدار اور لمس کی لذت سے اسی طرح لطف اٹھائیں اور کھلواڑ کریں جیسے وہ اسلام کی آمد سے پہلے کیا کرتے تھے۔
یہودی سنار نے اسے بے پردہ کرنے کی کوشش کی تو آس پاس موجود یہود نے اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ اس پر قریب میں موجود ایک مسلمان نے تلوار سونتی اور یہودی سنار پر چڑھ دوڑا اور اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ یہود نے مسلمان پر حملہ کرکے اسے شہید کر ڈالا۔
رسول اللہ ﷺ کو جب اس واقعہ کا علم ہواکہ یہودیوں نے معاہدہ توڑ دیا ہے اور وہ مسلمان خاتون کی بے حرمتی کے مرتکب ہو ئے ہیں تو آپ ﷺ نے اسلامی لشکر کے ہمراہ اُن کا محاصرہ کر لیا اور جب تک یہودیوں نے نبی کریم ؐ کا فیصلہ تسلیم نہ کیا ‘ آپ پیچھے نہیں ہٹے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارادہ تھا کہ یہود کو ان کے کیے کی عبرتناک سزا دی جائے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ایک پاکیزہ مسلم خاتون کی عصمت کی کیا قدروقیمت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے ارادے پر عمل کرنا چاہا تو شیطانی فوج کے ایک سپاہی جسے مسلم خواتین کی عزت و حرمت کی کوئی پرواہ تھی نہ اسلام سے سروکار ‘ آپ کی طرف بڑھا۔ یہ اس طبقے کا فرد تھا جس کا مطمح نظر اول و آخر اپنا پیٹ بھرنا اور سفلی جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کرنا ہوتا ہے۔
رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول ، رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھا اور بولا:
’’اے محمد(ﷺ)! میرے ہمنوار اور ہمدرد یہود سے اچھا سلوک کرو۔‘‘
یہ لوگ عہد جاہلیت میں ابنِ ابی کے انصار تھے۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا اور اس کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ ان لوگوں کے لیے عفوودرگزر کا طالب تھا جو ایمان والوں میں فحاشی و عریانی کا فروغ چاہتے تھے۔
منافقوں کا سردار پھر کھڑا ہوا اور درشتی سے بولا:’’ اے محمد(ﷺ)! یہود سے اچھا برتاؤ کرو۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے عفت مآب خواتین کی غیرت کے مارے اس بار بھی اس سے رخ پھیر لیا۔ اس پر منافق غصے میں آ گیا۔ اس بدطینت نے نبی کریم ﷺ کے گریبان پر ہاتھ ڈالا اور اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولا: ’’میرے ہمدردوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور میرے ہم نواؤں سے اچھا برتاؤ کرو۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو سخت غصہ آیا۔ آپ نے مڑ کر اسے دیکھا اور بلند آواز سے کہا:
’’مجھے چھوڑ دو۔‘‘
منافق نہ مانا۔ وہ نبی کریم ﷺ کو قسمیں دینے لگا کہ تمہیں یہود کے قتل کا حکم واپس لینا پڑے گا۔ بالآخر آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا:
’’جاؤ! وہ تمہارے ہیں۔‘‘ (سیرت ابن ہشام)
رسول اللہ ﷺ نے یہود کے قتل کا فیصلہ تو واپس لے لیا لیکن انہیں مدینے سے جلاوطن کر دیا۔ جی ہاں! ایک مسلمان عورت کی عزت اسی تحفظ کی حقدار تھی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button