سلطان العارفین کی بدمزاج بیوی
ایک مخلص ‘ صادق اور سچے مرید نے حضرت شاہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے طالقان سے خارقان تک دوردراز کا سفر اور سفر کے دوران مختلف پہاڑوں اور وادیوں سے گزرا۔
اس آدمی کے دل میں محبت کی ایک تڑپ تھی جو اس طویل سفر کی مشقتوں کو جھیلنے پر مجبور کر رہی تھی۔
بہرحال وہ شخص صعوبت و مشقت اٹھاتے ہوئے کسی طرح خارقان پہنچے اور پوچھتے پوچھتے حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر حاضر ہوکر دستک دی ۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گھر پر موجود نہ تھے۔ ایندھن کے لیے لکڑی لینے کے لیے جنگل تشریف لے گئے تھے۔ اندر سے شاہ صاحب کی اہلیہ نے پوچھا، کون ہے؟ عرض کیا کہ مسافر ہوں اور دور دراز کا سفر کرکے حضرت شاہ صاحب کی زیارت کو حاضر ہوا ہوں۔
اہلیہ نہایت بدمزاج اور سخت غصے والی تھی۔ حضرت شاہ صاحب سے اکثر لڑا کرتی تھیں‘ مسافر کے اس اظہارِ عقیدت پر بہت غضب ناک ہوئیں اور کہا ارے فلانے! کیا تجھے دنیا میں کوئی اور کام نہ تھا کہ اس قدر طویل سفر کی تکلیفیں فضول برداشت کیں اور بہت برا بھلا کہا۔
اس شخص نے حضرت شیخ کی اہلیہ کی زبان سے جب بدتمیزی کی باتیں سنیں تو تاب نہ لا سکا اور کہا کہ اگر حضرت شیخ سے تمہارا بیوی ہونے کا تعلق نہ ہوتا تو ابھی تمہارے جسم کو پارہ پارہ کر دیتا۔ لیکن اتنے بڑے سلطان العارفین کی اہلیہ ہو‘ اس لیے میں کوئی گستاخی نہیں کر سکتا۔
یہ کہہ کر پھر محلّہ کے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضرت کہاں تشریف لے گئے ہیں؟
کسی نے بتایا کہ وہ قطبِ وقت جنگل میں لکڑیاں لینے گئے ہیں۔ شیخ کی محبت میں وہ مرید جنگل کی طرف چل دیا اور راستے میں سوچتا جا رہا تھا کہ اتنا بڑا شیخ! ایسی بداخلاق عورت کو نہ جانے کیوں شرفِ تعلق بخشتا ہے۔ اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ سامنے سے ایک شخص شیر کی پشت پر سوار چلا آ رہا ہے اور لکڑیوں کا گٹھر بھی شیر کی پشت پر رکھا ہوا۔ یہی قطبِ وقت سلطانِ معرفت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے۔
جب شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مرید کو دیکھا تو آپ ہنس پڑے اور سمجھ گئے کہ اہلیہ کی سخت باتیں سن کر یہ پریشان اور فکرمند ہے۔
آپ نے مرید سے ارشاد فرمایا:
’’اس بے وقوف عورت کی اور اسی طرح کی سینکڑوں تکلیفیں برداشت کرتا ہوں اور یہ مجاہدہ و مشقت صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہے نہ کہ اس بدمزاج عورت کے حسن اور رنگ کے عشق میں۔ چونکہ میں خلق میں محبوب ومقبول ہوں اور مخلوق کی تعظیم سے میرے اندر عجب وخودبینی پیدا ہو جاتی ہے۔ لہٰذا میرے تکبر اور خودبینی کا علاج یہ عورت کیا کرتی ہے۔ جب یہ میرے ساتھ گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آتی ہے تو دماغ سے وہ تمام پندار و تکبر نکل جاتا ہے جو خلق کی تعریف و تعظیم سے پیدا ہوتا ہے اور اس طرح نفس کا عجب و تکبر سے تزکیہ ہو جاتا ہے۔‘‘