جسمانی عدم توازن کی شکار مگرخود انحصار
اگر انسان کا عزم بلند، ارادے پختہ، اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے کی جستجو اور خود پر اعتماد ہو تو سماجی رکاوٹیں تو درکنار جسمانی معذوری یا نقائص بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتے، لاہور کی فاطمہ حسن نے یہ ثابت کر دکھایا ہے جنہوں نے ایک پیچیدہ جسمانی بیماری لاحق ہونے کے باوجود خود انحصاری کی زبردست مثال قائم کی۔ خوش شکل، خوش لباس اور خوب سیرت فاطمہ حسن پیدائش کے وقت تو عام بچے کی طرح تھی لیکن دس سال کی عمر میں نیورو مسکیولر ڈسٹونیا کا مرض لاحق ہو گیا جس سے ان کے جسم میں عدم توازن پیدا ہو گیا۔ بعد میں ڈسٹونیا کا مرض ان کی آواز کے نظام میں سرایت کر گیا اور یوں وہ ڈسٹونیا کے ساتھ ڈسفونیا کا بھی شکار ہوگئیں جس سے فاطمہ کی آواز بند ہو گئی۔ اس بیماری کے باوجود فاطمہ نے ہمت نہیں ہاری، اپنی تعلیم جاری رکھی اور Visual کمیونیکیشن اینڈ ڈیزائن میں گریجویشن کیا۔ وہ اس وقت ایک آئی ٹی کمپنی میں یو ایکس کنسلٹنٹ ہیں اور بلاگ بھی لکھتی ہیں۔ وہ موبائل فون پر ٹائپ کر کے اپنی بات دوسرے تک پہنچاتی ہیں۔ فاطمہ کے مطابق وہ کم عمری میں ہی میچور ہوگئی تھی اور اُس نے اپنے اس مسئلے کو قبول کیا کہ میرا جسمانی توازن خراب ہو رہا ہے اور اب میں نے کیسے زندگی گزارنی ہے؟ فاطمہ فٹ رہنے کے لیے جم بھی جاتی ہیں۔ گٹ فٹ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر انشال منیر کا کہنا ہے کہ جب فاطمہ حسن نے جم آنا شروع کیا تو یہ ان کیلئے ایک چیلنج تھا ، چنانچہ ہم نے اس کے لیے کئی پلان بنائے اور فزیو تھراپسٹ کی خدمات بھی حاصل کیں۔ آئی ٹی کے شعبے میں فاطمہ کی مہارت گھر والوں کے کام بھی آنا شروع ہو گئی ہے۔ فاطمہ حسن کی بہن زنیرہ حسن بتاتی ہیںکہ ہم اپنے والد کا کاروبار چلا رہی ہیں، میں مارکیٹنگ کے شعبے کو دیکھتی ہوں جبکہ آئی ٹی اور سوشل میڈیا کے معاملات فاطمہ حسن کے ذمہ ہیں۔ زنیرہ کے مطابق فاطمہ ان کیلئے گرافکس اور یونیورسٹی کے پراجیکٹس بھی بناتی ہیں۔ فاطمہ حسن کی خود اعتمادی میں اُن کے والدین اور رشتہ داروں کا بھی ہاتھ ہے جنہوں نے انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی طرح بھی دوسروں سے مختلف ہیں۔ فاطمہ سمجھتی ہیں کہ پورے معاشرے کو باشعور ہونے کی ضرورت ہے اور وہ بلاگ اسی لئے لکھتی ہیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ سماجی مسائل سے کیسے عہدہ برآ ہونا ہے؟