ایک خوشگوار احساس، آج کیا پکائیں؟

میاں بیوی کے خوشگوار احساس پر مبنی ایک خوبصورت تحریر

بیگم نے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے شوہر سے پوچھا جناب آج شام کو کیا پکانا ہے؟ شوہر نے بیگم کی طرف دیکھا تو اس نے نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں جیسے کن اکھیوں سے شوہر کے جواب کا انتظار کر رہی ہو، اس کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ تھی جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی، شوہر نے دیکھا تو اسے بیوی کا یہ انداز بہت پسند آیا مگر اس نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ یہ خواتین کا کام ہے اور انہیں ہی کرنا چاہئے۔

خیر شوہرناشتے کی میز سے اٹھا تو ایک خوشگوار احساس اس کے ساتھ تھا ،وہ آفس جاتے ہوے پورے راستے یہ سوچتا رہا کہ مزاج شناس بیوی اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے، کیونکہ کئی گھرانوں کی کہانیاں اس کے سامنے تھیں جہاں بیویوں کو اس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا کہ وہ بھی ان کی زندگی اور فیملی کا حصہ ہیں۔ کیا آپ کو بھی آج کیا پکائیں جیسے سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اگر ہاں تو آپ کا جواب کیا تھا؟ بیوی کے سوال پر آپ کا رویہ دوستانہ تھا یا تلخ؟

اگر آپ کا رویہ تلخ تھا تو پھر آپ کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے جہاں پر خواتین کے بولنے، سوال کرنے اورزندگی میں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، ایسے رویوں کی حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی خواتین کے ساتھ تلخ رویے کا اظہار کرنے والے افراد کو لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جن افراد میں خواتین سے متعلق تلخ سوچ پائی جاتی ہے ان کی زندگی خوشیوں سے کوسوں دور ہوتی ہے، ایسے افراد تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ لوگوں کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی ہے۔

جو شخص بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق اور مزاح نہیں کر سکتا وہ شاید کسی بھی فرد کےساتھ ہنسی مذاق نہیں کر سکتا ہے کیونکہ انسان سب سے زیادہ بے تکلف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتا ہے، یہ بات متعدد سرویز میں سامنے آ چکی ہے جن میں خواتین سے سوال کیا گیا کہ آپ کو شوہر کے کس عمل سے زیادہ خوشی ہوتی ہے تو اکثر خواتین کا جواب تھا کہ وہ شوہر کی طرف سے وقتاً فوقتاً اشاروں کنایوں میں کئے جانے والے رومانس سے بہت زیادہ لطف اندوز ہوتی ہیں، اب شوہر اگر خواتین کی اس حس کو محسوس ہی نہ کرے اور ہر بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لے تو اسے خوشگوار گھرانہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

ایسے ماحول میں خواتین شوہروں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ تلخ رویہ اپنا کر مرد حضرات اپنی زندگی بھی اجیرن بناتے ہیں اور خواتین کی بھی۔ اس ساری صورتحال سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں ، بچے اگر چہ باپ کے سامنے کچھ بولتے نہیں ہیں لیکن وہ سب کچھ محسوس کرتے ہیں ، ان کی زندگی پر والدین کی زندگی کے گہرے نقوش مرتب ہوتے ہیں، شوہر کی طرف سے بیوی کے ساتھ ناروا سلوک سے بچے ماں کو مظلوم سمجھنے لگتے ہیں۔

باپ کے مقابلے میں بچے ماں کا ساتھ دیتے ہیں ، تلخ ماحول کے باعث کئی گھرانے تو بکھر چکے ،سو اپنی انا کی کھوکھلی زندگی کو ایک طرف رکھیں اور بچوں کی زندگی کو سامنے رکھ کر گھر میں ایسا رویہ اپنائیں جو بچوں کیلئے ساز گار ہو ۔ اس لئے شوہر کو چاہئے کہ بیوی کی ڈیمانڈ اور تقاضوں پر سیخ پا ہونے کی بجائے اسے خوشگوار احساس تصور کرے، شوہر کے اس رویے سے اسے بیوی کی طرف سے محبت اور خدمت ملے گی جو پورے گھر کو خوشیوں سے بھر دے گی، جب بچے اس دوستانہ ماحول میں پرورش پائیں گے تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں بلند ہوں گی۔ مرد حضرات کو ان پہلوؤں کا ضرور جائزہ لینا چاہئے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button