سرکاردوجہاں کی نبوت کی شان
٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں جملہ انبیاء کی شان نظر آتی ہے۔
٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح جھٹلائے اور ستائے گئے، پھر بھی صابر و شاکر ہی پائے گئے۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح بیابانوں اور بستیوں میں خدا کی آواز کو پہنچایا۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ رسول اللہ کی طرح خدا کے گھر کی عظمت و حرمت کو از سر نو زندہ فرمایا۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح صبر و شکیبائی کے ساتھ گھاٹی میں تین سال تک محصوری کے دن کاٹے، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل خدا کی ثناء گزاری سے لبریز اور زبان ستائش گوئی سے زمزمہ سنج رہی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نوع علیہ السلام کی طرح قوم کے برگشتہ بخت لوگوں کو خفیہ اور علانیہ ، خلوت اور جلوت میں ، میلوں اور جلسوں ، گزرگاہوں اور راہوں پر، پہاڑوں اور میدانوں میں اسلام کی تبلیغ فرمائی، اور لوگوں کو ان کے افعال بد سے نفرت دلائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح نافرمان قوم سے علیحدگی اختیار کی، مادر وطن کو چھوڑ کر شجرہ طیبہ اسلام کے لگانے کے لیے پاک سرزمین کی تلاش میں رہ نورد ہوئے۔
٭ آپ شبِ ہجرت کو حضرت دائود علیہ السلام کی طرح دشمنوں کے نرغہ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
٭ اور حضرت یونس علیہ السلام کی طرح (جنہوں نے تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہ کر پھر نینویٰ میں اپنی منادی کو جاری کیا تھا۔ غار ثور کے شکم میں تین دن رہ کر پھر مدینہ طیبہ میں کلمۃ اللہ کی آواز کو بلند فرمایا۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح (جنہوں نے بنی اسرائیل کو فرعونِ مصر کی غلامی سے آزاد کرایا تھا) شمالی عرب کو شاہِ قسطنطنیہ کی بنو ملوکیت سے اور شرقی عرب کو کسرائے ایران کے حلقہ غلامی سے اورجنوبی عرب کو شاہِ حبش کے طوقِ بندگی سے نجات دلائی۔
٭ آپ نے سلیمان علیہ السلام کی طرح مدینہ میں خدا کے لیے ایک گھر بنایا، جو ہمیشہ کے لیے خدا کی یاد کرنے والوں سے معمور اور ضیاء توحید سے پُرنور رہا ہے، جسے کوئی بخت نصر جیسا ’’سیاہ بخت‘‘ ویران نہ کر سکا۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوسف علیہ السلام کی طرح اپنے ایذا رساں و ستم پیشہ برادرانِ مکہ کے لیے نجد سے (بتوسط ثمامہ بن اثال) غلط بہم پہنچایا اور بالآخر فتح مکہ کے دن لا تَشْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ (۱۲ یوسف: ۹۲) مژدہ سنا کر ’’اَنْتُمُ الطُّلُقَائُ‘‘ کے فرمودہ سے انہیں پابندِ منت و احسان بنایا۔
٭ وقت واحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح صاحبِ حکومت تھے اور حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح صاحب امامت بھی۔
٭ ذات مبارک صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت نوع علیہ السلام کی سی گرمی، حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی نرم دلی ، حضرت یوسف علیہ السلام کی سی درگزر، حضرت دائود علیہ السلام کی سی فتوحات، حضرت یعقوب علیہ السلام کا سا صبر ، سلیمان علیہ السلام کی سی سطوت ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سی خاکساری ، حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سا زہد ، حضرت اسماعیل کی سی سبک روحی کامل ظہور بخش تھی۔
خورشیدِ رسالت میں اگرچہ تمام مقدس رنگ موجود تھے،لیکن ’’رحمۃ للعالمینی‘‘ کا وہ نور تھا ، جس نے تمام رنگوں کو اپنے اندر لے کر دنیا کو ایک برگزیدہ و چیدہ (بیضا و نقیہ) روشنی سے منور کر دیا ہے۔