بے جا تنقید کا سامنا کیسے کریں؟
کچھ لوگ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ جو خالق و مالک ہے‘ جو سب کو روزی دیتا ہے ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ پھر ہم اور آپ‘ جو خطاکار ہیں، غلطیاں کرتے ہیں‘ ان کی کیا حیثیت ۔ ہمیں تو لوگوں کی بے جا برائی اور تنقید کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ ہمیں برباد کرنے کے منصوبے بنیں گے‘ جان بوجھ کر اہانت کی جائے گی۔ جب تک آپ دے رہے ہیں‘ بنا رہے ہیں‘ مؤثر ہیں‘ ترقی کر رہے ہیں تب تک لوگ آپ پر تنقید سے نہ چوکیں گے سوائے اس کے کہ آپ زمین میں سما جائیں یا آسمان پر چڑھ جائیں اور ان کی نظروں سے دور ہو جائیں ۔ جب تک آپ ان کے بیچ ہیں آپ کو اذیت پہنچتی رہے گی‘ آنسو نکلیں گے‘ نیند اُڑے گی۔ جو زمین پر بیٹھا ہوا ہے وہ نہیں گرتا:
گر تے ہیں شہہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
لوگ آپ پر اسی لیے تو ناراض ہوتے ہیں کہ آپ علم‘ صلاحیت‘ اخلاق یا مال میں ان سے بڑھ گئے ہیں وہ آپ کو معاف کر ہی نہیں سکتے جب تک آپ کی صلاحیتیں ختم نہ ہو جائیں اور اللہ کی نعمتیں آپ سے چھن نہ جائیں۔ آپ ساری اچھائیوں اور خوبیوں سے تہی دامن نہ ہو جائیں۔ بے کار اور صفر ہو کر نہ رہ جائیں۔ یہی وہ چاہتے ہیں‘ لہٰذا آپ کو ان کی بے جا تنقید‘ ناروا باتوں اور تحقیر کو برداشت کرنا ہوگا۔ ’’احدپہاڑ‘‘ کی طرح جم جائیے‘ ایسی چٹان بن جائیے جس پر اولے پڑتے ہیں اور ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں‘ چٹان اپنی جگہ جمی رہتی ہے ۔ اگر آپ نے لوگوں کی تنقیدوں کو اہمیت دی تو آپ کی زندگی مکدر کردینے کی ان کی منہ مانگی مراد پوری ہو جائے گی لہٰذا بہتر طور پر درگزر کیجئے ، ان سے اعراض کیجئے اور ان کی باتوں میں نہ آئیے۔ ان کی فضول برائی سے آپ کا درجہ بلند ہوگا۔ پھر جتنا بھی آپ کا وزن ہوگا اتنا ہی ہنگامہ اور شور و شغب آپ کے خلاف ہوگا۔ آپ کس کس کے منہ کو بند کریں گے۔ لیکن اگر ان سے صرف نظر کریں گے‘ اور ان کو ان کے حال پر چھوڑیں گے تو آپ ان کی تنقیدوں سے بچ سکتے ہیں۔
’’آپ کہہ دیں اپنے غیظ و غضب میں مر جاؤ۔‘‘ (۳:۱۱۹)
یہی نہیں بلکہ آپ اپنے فضائل و محاسن میں اضافہ کرکے اپنی خامیوں کو دور کرکے ان کی زبانوں میں تالا ڈال سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ یہ چاہیں گے کہ دنیا کے نزدیک تمام عیوب سے بری ہو جائیں گے اور سبھی لوگوں میں مقبول ہو جائیں گے تو یہ ناممکن کی آرزو ہے اور دور کی امید۔