میں جنت میں تم سے روٹھ جائوں گا
غازی انور پاشا ترکی کے اُن جلیل القدر مجاہدین میں سے تھے جنہوں نے اپنی ساری عمر اسلام دشمنوں کے ساتھ جہاد میں صرف کی‘ اور بالآخر رُوسی بالشویکوں سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ انہوں نے اپنی شہادت سے صرف ایک دن پہلے ایک خط اپنی بیوی شہزادی نجیہ سلطانہ کے نام روانہ کیا تھا جو انہوں نے ترکی اخبارات میں شائع کرا دیا‘ اور وہیں سے ترجمہ ہو کر ۲۲ اپریل ۱۹۲۳ء کے ہندوستانی اخبارات میں شائع ہوا۔ یہ مکتوب اس قدر ولولہ انگیز اور سبق آموز ہے کہ ہر نوجوان کو پڑھنا چاہیے۔ ذیل میں اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’میری رفیقۂ حیات اور سرمایۂ عیش و سرور پیاری نجیہّ! خدائے بزرگ و برتر تمہارا نگہبان ہے‘ تمہارا آخری خط اس وقت میرے سامنے ہے۔ یقین رکھو تمہارا یہ خط ہمیشہ‘ میرے سینے سے لگا رہے گا۔ تمہاری صورت تو نہیں دیکھ سکتا ‘ مگر خط کی سطروں اور حرفوں میں تمہاری انگلیاں حرکت کرتی نظر آ رہی ہیں‘ جو کبھی میرے بالوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ خیمے کے اس دھندلکے میں کبھی کبھی تمہاری صورت بھی نگاہوں میں پھر جاتی ہے۔
آہ تم لکھتی ہو کہ میں تمہیں بھول بیٹھا ہوں اور تمہاری محبت کی کچھ پروا نہیں کی۔ تم کہتی ہو کہ میں تمہارا محبت بھرا دل توڑ کر اس دور افتادہ مقام میں آگ اور خون سے کھیل رہا ہوں۔ اور ذرا پرواہ نہیں کرتا کہ ایک عورت رات بھر میرے فراق میں تارے گنتی رہتی ہے۔تم کہتی ہو کہ مجھے جنگ سے محبت ہے اور تلوار سے عشق۔ لیکن یہ لکھتے وقت تم نے بالکل نہ سوچا کہ تمہارے یہ لفظ جو یقیناً سچی محبت نے لکھوائے ہیں ‘ میرے دل کا کس طرح خون کر ڈالیں گے۔ میں تمہیں کس طرح یقین دلا سکتا ہوں کہ دُنیا میں مجھے تم سے زیادہ کوئی محبوب نہیں‘ تم ہی میری تمام محبتوں کا منتہیٰ ہو۔ میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی‘ لیکن ایک تم ہی ہو جس نے میرا دل مجھ سے چھین لیا ہے۔ پھر میں تم سے جدا کیوں ہوں ؟راحتِ جان! یہ سوال تم بجا طور پر کر سکتی ہو۔ سنو! میں تم سے اس لیے جدا نہیں ہوں کہ میں مال و دولت کا طالب ہوں‘ اس لیے بھی جدا نہیں ہوں کہ اپنے لیے تخت شاہی قائم کر رہا ہوں جیسا کہ میرے دشمنوں نے مشہور کر رکھا ہے ‘ میں تم سے صرف اس لیے جدا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرض مجھے یہاں کھینچ لایا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی فرض نہیں‘ یہی وہ فرض ہے جس کی ادائیگی کی نیت ہی انسان کو فردوسِ بریں کا مستحق بنا دیتی ہے۔ الحمد للہ کہ میں فرض کی محض نیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اسے عملاً انجام دے رہا ہوں۔ تمہاری جدائی ہر وقت میرے دل پر آرے چلایا کرتی ہے لیکن میں اس جدائی سے بے حد خوش ہوں ‘ کیونکہ تمہاری محبت ہی ایک ایسی چیز ہے جو میرے عزم و ارادے کے لیے سب سے بڑی آزمائش ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں اس آزمائش میں پورا اُترا اور اللہ کی محبت اور حکم کو اپنی محبت اور نفس پر مقدم رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ تمہیں بھی خوش ہونا اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہارا شوہر اتنا مضبوط ایمان رکھتا ہے کہ خود تمہاری محبت کو بھی اللہ کی محبت پر قربان کر سکتا ہے۔
تم پرتلوار سے جہاد فرض نہیں ‘ لیکن تم بھی اپنے نفس و محبت پر محبتِ خدا کو مقدم رکھو ۔ اپنے شوہر کے ساتھ حقیقی محبت کے رشتے کو اور بھی مضبوط کرو۔ دیکھو! یہ دعا ہر گز نہ مانگنا کہ تمہارا شوہر میدانِ محبت سے کسی طرح صحیح و سلامت تمہاری آغوشِ محبت میں واپس آ جائے۔ یہ دعا خودغرضی کی دُعا ہو گی‘ اور خدا کو پسند نہ آئے گی۔ البتہ یہ دعا کرتی رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے شوہر کا جہاد قبول فرمائے ‘ اسے کامیابی کے ساتھ واپس لائے ‘ وہ لب جو تم جانتی ہو شراب سے کبھی ناپاک نہیں ہوئے‘ بلکہ ہمیشہ تلاوت و ذکر الٰہی سے سرشار رہے ہیں۔ پیاری نجیہ! آہ وہ ساعت کیسی مبارک ہو گی جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں یہ سر‘ جسے تم خوبصورت بنایا کرتی تھیں‘ تن سے جدا ہو گا‘ وہ جو تمہاری محبت کی نگاہوں میں سپاہیوں کا نہیں‘ نازنینوں کا سا ہے…!! انور کی سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ شہید ہو جائے اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ اس کا حشر ہو ۔ دنیا چند روزہ ہے ‘ موت یقینی ہے ‘ پھر موت سے ڈرنا کیسا ؟
جب موت آنے ہی والی ہے تو پھر آدمی بستر پر پڑے پڑے کیوں مرے؟ شہادت کی موت‘ موت نہیں‘ زندگی ہے‘ لازوال زندگی! نجیہ! میری وصیت سن لو‘ اگر میں شہید ہو جائوں تو تم اپنے دیور نوری پاشا سے شادی کر لینا ۔ تمہارے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز نوری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے سفرِ آخرت کے بعد وہ زندگی بھر وفاداری سے تمہاری خدمت کرتا رہے۔ میری دوسری وصیت یہ ہے کہ تمہاری جتنی بھی اولاد ہو سب کو میری زندگی کے حالات سنانا اور سب کو میدان جہاد میں اسلام و وطن کی خدمت کے لیے بھیج دینا۔ اگر تم نے یہ نہ کیا تو یاد رکھو میں جنت میں تم سے روٹھ جائوں گا۔ میری تیسری وصیت یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال پاشا کی ہمیشہ خیر خواہ رہنا ۔ ان کی ہر ممکن مدد کرتی رہنا کیونکہ اس وقت وطن کی نجات خدا نے ان کے ہاتھ میں رکھ دی ہے۔ اچھا پیاری رُخصت! نہیں معلوم کیوں میرا دل کہتا ہے کہ اس خط کے بعد تمہیں پھر کبھی خط نہ لکھ سکوں گا۔ کیا پتہ ہے کہ کل ہی شہید ہو جائوں۔ دیکھو صبر کرنا‘ میری شہادت پر غم کھانے کی بجائے خوشی کرنا کہ میرا اللہ کی راہ میں کام آ جانا تمہارے لیے باعث فخر ہے۔ نجیہ! اب رخصت ہوتا ہوں ‘ اور اپنے عالمِ خیال میں تمہیں گلے لگاتا ہوں ‘ ان شاء اللہ جنت میں ملیں گے اور پھر کبھی جدا نہ ہوں گے۔ تمہارا انور۔‘‘
(منقول ازترکانِ احرار‘ مؤلفہ: عبدالمجید عتیقی، ص: ۱۲۷ تا ۱۳۰، مطبوعہ کابل بک ڈپو ، لاہور)
یہاں یہ واضح رہنا ضروری ہے کہ اس خط کے لکھنے کے بعد مصطفی کمال پاشا صرف ایک مجاہدِ اسلام کی حیثیت سے معروف تھے ‘ اور انہوں نے ترکی میں وہ اسلام دشمن اقدامات نہیں کیے تھے‘ جو بعد میں پیش آئے۔