ایک اچھوتی اور نادر داستان
جو عزت و شرف رسالت مآب ﷺ کی غلامی میں ہے وہ شاہی میں بھی بھلا کہاں ہے ، اگر بہ نظر غائردیکھا جائے تو رسول اللہ ﷺ کے غلام ہی حقیقی بادشاہ ہیں اور شاہان و ملوک ان کی چوکھٹ کے فقیر و گدا ہیں۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا تعلق یمن کے نہایت معزز قبیلے قضاء سے تھا اور والدہ سعدیٰ قبیلہ بنو معن سے تھیں ، صغر سنی کا آٹھواں سال تھا کہ ایک دفعہ وہ اپنی والدہ کے ہمراہ تھے جو اپنے میکے جا رہی تھیں کہ بنو قین کے سواروں کی ایک جماعت دکھائی دی۔ وہ غارت گری کر کے آ رہے تھے ، دونوں ماں بیٹا ہنسی خوشی جا رہے تھے کہ وہ غارت گر ان کے قریب آئے۔ زید کو اٹھایا اور چل پڑے، سعدیٰ کا کلیجہ دھک سے رہ گیا ، منت سماجت کی، آہ و زاری کی لیکن ان پتھر دلوں پر کچھ اثر نہ ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ سوار زید کو لے کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
زید کا بھی برا حال تھا ، وہ زور زور سے چلا رہے تھے لیکن ماں بیٹا دونوں بے بس اور مجبور تھے، سعدیٰ کو میکے جانا بھول گیا ، واپس لوٹ گئیں اور لختِ جگر کی جدائی نے برا حال کر دیا۔ زید کا والد حارثہ بن شرجیل بھی بیٹے کے غم میں ماہی بے آب تھا ۔ اس نے زید کی تلاش میں صحرا و بیابان ، جنگل اور وادیاں، شہر اور بستیاں ، قریے اور قصبے چھان مارے مگر بیٹے کا کہیں سراغ و نشان نہ ملا۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور بیٹے کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہا… وقت کے ہم آہنگ بیٹے سے جدائی کے زخم روز افزوں گہرے ہوتے چلے گئے۔ بنو قین کے سوار زید کو عکاظ کے میلے میں لے گئے۔ وہاں ضروریات زندگی کی اشیاء کے علاوہ لونڈی غلام بھی بک رہے تھے، زید کو بھی بکنے والوں میں شامل کر دیا گیا۔ حکیم بن حزام بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے بعوض چار سو درہم ، زید کو اپنی پھوپھی خدیجہ بنت خویلد کے لیے خرید لیا اور لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔
اب زید بن حارثہ مکہ کی امیر ترین تاجرہ اور عالی حسب و نسب بیوہ خاتون کے غلام تھے اور جب وہ محبوب کبریا ﷺ کے حبالہ عقد میں آئیں تو انہوں نے زید کو اپنے سرتاج پیغمبر کے لیے ہبہ کر دیا ، اب زید رضی اللہ عنہ رحمتِ کونین ﷺ کے ، شاہوں سے معزز غلاموں میں شامل ہو گئے۔ اور اس بات کو کئی سال بیت گئے، زید کا والدین سے جدا ہونے کا واقعہ بظاہر بڑا دردناک تھا لیکن انہیں کیا معلوم کہ تقدیر نے ان پر کتنا احسانِ عظیم کیا تھا اور گھیر کر انہیں حضور اکرم ﷺ کی غلام کا شرف عطا کیا تھا۔ اب وہ شب و روز اپنے آقا و مولا ﷺ کی خدمت میں مصروف ، جنت کی روح پرور راہوں پر گامزن تھے۔ وقت تیزی سے محوِ پرواز رہا، ایک سال بنی کعب کے چند آدمی حج کے لیے مکہ مکرمہ آئے تو انہوںنے والد کے اس یوسفِ گم گشتہ کو پہچان لیا اور ان کے والد حارثہ کا ماجرۂ غم کہہ سنایا… حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جب باپ کے دکھ کے بارے میں سنا تو ان کی تشفی کے لیے چند اشعار پڑھے اور بنی کعب کے لوگوں سے کہا کہ یہ اشعار میرے باپ کو سنا دینا۔
باپ کو جب معلوم ہوا کہ بیٹا بقیدِ حیات ہے تو خوشی کی انتہا نہ رہی ، دل چاہا کہ پر لگ جائیں اور اُڑ کر ابھی مکہ پہنچ جائے۔ اس نے اپنے بھائی کعب کو ساتھ لیا اور جتنی تیز روی سے ممکن تھا اپنی گم گشتہ متاعِ حیات پانے کے لیے مکہ کی راہوں پر چل پڑا، مکہ مکرمہ پہنچ کر کشاں کشاں بارگاہِ رسالت ﷺ میں پہنچا اور عرض کی:
اے ابنِ عبداللہ ! اے فرزندِ ہاشم! اپنی قوم کے سردار!
آپ غمگین کو غم سے چھڑاتے ہیں ، ہم آپ کے پاس اپنے دل بند ، گوشہ قلب اور پیارے لختِ جگر کے معاملہ میں آئے ہیں ، وہ آپ کے پاس ہے ، ہم پر احسان کیجئے اور اس کا فدیہ قبول کرنے میں ہمارے ساتھ نیکی کا برتائو کیجئے! آپ نے پوچھا: وہ کون ہے؟ بتایا گیا ’’زید بن حارثہ‘‘ آپ نے سماعت فرمایا اور لبِ لعلیں کو جنبش دی ، تم زید کو اختیار دو کہ وہ کس کو ترجیح دیتا ہے ، اگر تمہیں ترجیح دے تو بغیر فدیہ ادا کئے وہ تمہارا ہے اور اگر اس کا فیصلہ میرے حق میں ہو تو واللہ! میں ایسا نہیں کہ وہ تو مجھے اختیار کرے اور میں اس کے لیے کچھ اور پسند کروں۔ یہ سنا تو حارثہ بن شرجیل نے عرض کیا: آپ نے تو ہمیں نصف سے زائد دیا اور احسان کیا۔
بعد ازاں حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بلایا اور دریافت فرمایا: تم ان لوگوں کو جانتے ہو؟ وہ بولے : جی ہاں یارسول اللہ ! یہ تو میرے والد حارثہ اور میرے چچا کعب ہیں۔ آقائے کونین نے فرمایا: یہ تمہیں لینے آئے ہیں اب تمہیں اختیار ہے چاہے مجھے پسند کرو یا ان کو ۔ تو تاریخ کے کانوں نے ایک اچھوتا جملہ سنا: یارسول اللہ ﷺ! آپ ہی میرے ماں باپ اور سب کچھ ہیں‘ میں آپ پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔ والد و چچا نے جب بیٹے کے منہ سے یہ سنا تو حیرت بدنداں رہ گئے ، اپنی سماعت پر یقین نہیں آتا تھا کہ زید آزادی پر غلامی کو فوقیت دے گا۔ وہ جو اس غلامی کی عظمت سے نابلد اور ناآشنا تھے بیک زبان بولے: صد افسوس! کہ تم آزادی ، باپ، چچا اور خاندان کو چھوڑ کر غلام بن کر رہنا چاہتے ہو؟ محبت آزمائش سے گزر رہی تھی… حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا: ہاں! میرے مالک ، حضور اکرم ﷺ کی ذات پاک ہی ایسی ہے کہ ان پر میں کسی اور کو اختیار نہیں کر سکتا… ان کی غلامی کا لطف صدہا آزادیوں سے بالا ہے۔ (عشقِ رسول کریم ﷺ، ص: 379)