مسکراہٹ اور کامیابی کا باہمی تعلق
کیا آپ کسی ایسے شخص سے ملنا پسند کریں گے جس کی تیوریاں چڑھی ہوئی ہوں اور باتیں بھی تُرش و تلخ لہجے میں کرتا ہو۔ آپ کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا ۔ پہلی بار کسی اہم کام سے اگر اس سے ملنا ضروری ہوا تو آپ ملاقات کر لیں گے مگر دوسری بار آپ حتی الامکان اس سے دور رہیں گے۔
قرآن و سنت میں خوش خلقی اور خندہ روئی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ سورۂ لقمان میں لقمان رحمہ اللہ کی طرف سے اپنے بیٹے کو کی گئی اس نصیحت کا ذکر کیا گیا ہے:
ترجمہ: ’’ اور تو لوگوں سے بے رُخی نہ کر۔ ‘‘ (لقمان 18:31)
لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا ہمارے لیے صدقہ کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس سے ثواب بھی ملتا ہے اور ہمارا حلقۂ احباب بھی وسیع ہو جاتا ہے۔ جو شخص ایک بار خوش خلق و خوش اطوار شخص سے ملتا ہے ‘ وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اور دوسری بار بھی اس سے ملاقات کا خواہش مند ہوتا ہے۔
ایک دفعہ میں ایک ڈاکٹر کے کلینک میں بیٹھا اس کی آمد کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ میں اور چند دیگر مریض اپنی باری جلد آنے کی خواہش کے تحت مقررہ وقت سے پہلے وہاں پہنچ گئے تھے۔ میں نے کئی مریضوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہ ڈاکٹر اتنی اچھی طرح حال پوچھتا ہے کہ آدمی کی آدھی بیماری اس سے دُور ہو جاتی ہے۔
آپ نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہو گا کہ فلاں افسر ایسا برہم دکھائی دیتا ہے جیسے گھر میں بیوی سے لڑ کرآیا ہو۔
موجودہ دور کو ’’تعلقات عامہ‘‘ یا ’’P.R‘‘ کا دور کہا جاتا ہے۔ انسان کو ایک دوسرے کے قریب تر لانے اور خیر سگالی کے تعلقات کو بڑی اہمیت حاصل ہو چکی ہے‘ چنانچہ تمام سرکاری محکموں اور بیشتر نجی اداروں میں اس کے لیے ایک الگ شعبہ قائم کر دیا گیا ہے جس کا کام اس ادارے یا محکمے کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنا اور محکمے کی طرف سے ’’کھلے ماتھے‘‘ کے ساتھ پیش آنا ہوتا ہے۔ اس محکمے یا شعبے کو ’’پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ‘‘ یا صرف "P.R. MEN”کہا جاتا ہے‘ لہٰذا ہمیں انفرادی طور پر بھی خوش خلق اور ملنسار ہونا چاہیے۔
مسکراہٹ کا انسان کی کامیابیوں میں گہرا دخل ہوتا ہے ۔ ایک شخص کی مسکراہٹ بہت سی مسکراہٹوں کو جنم دیتی ہے ۔ افسردہ و پژمردہ انسان سارے ماحول پر افسردگی طاری کر دیتا ہے۔ آپ سکول یا دفتر میں مغموم چہرہ لیے ہوئے آتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی معقول سبب ، مثلاً راستے میں کوئی حادثہ پیش آ گیا ہو یا کسی نے آپ سے بدتمیزی کی ہو ‘ اس سے طبیعت کا مکدر ہو جانا ایک فطری امر ہے۔ ایسی صورت ہو تو اپنے ساتھیوں کو اس کی وجہ بتا دینی چاہیے تاکہ وہ آپ کی برہمی کی وجہ سے آگاہ ہو جائیں اور جس حد تک ممکن ہو وہ آپ کی دلجوئی بھی کریں ۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ آپ کے منہ بسورنے کے بارے میں ان کا دل صاف ہو جائے گا۔
ہمارا مطلب بلاوجہ منہ پھلائے رہنے سے ہے ۔ اس سے جتنا ممکن ہو اجتناب کیا جانا چاہیے۔ غمگین ہونے کے باوجود بھی اگر مسکرانے کا موقع مل جائے تو ضرور مسکرائیے ۔ ہمارے اسلاف نے اس سلسلے میں کئی مثالیں چھوڑی ہیں۔ ایک حدیث میں فرمان نبوی ہے:
’’اگر تم اپنے بھائی کے سامنے مسکرائو تو یہ ایک صدقہ ہوگا۔‘‘ ( جامع الترمذی، البروالصلٰۃ ، باب ماجاء فی صنائع المعروف، حدیث : 1956)
قرآن مجید میں آتا ہے:
ترجمہ: ’’چنانچہ وہ (سلیمان علیہ السلام) اس کی بات پر مسکراتے ہوئے ہنس پڑ ے اور کہنے لگے: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام کی ہے اور اس بات کی بھی کہ میں ایسے نیک کام کروں جو تو پسند کرے ‘ اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔ ‘‘ (النمل19:27)
نبی اکرم ﷺ اکثر تبسم فرمایا کرتے تھے لیکن کبھی کبھار آپ اس طرح بھی ہنستے کہ آپ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگتے ۔ آپ اس طرح نہیں ہنستے تھے کہ آپ کے منہ کا اندرونی حصہ نظر آنے لگتا ہو۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’میں نے نبی کریم ﷺ کو اس طرح کھل کرکبھی ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آنے لگتا ہو‘ آپ صرف مسکراتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الأدب‘ باب التبسم والضحک‘ حدیث: 6092)
جلیل القدر صحابی سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’جب سے میں نے اسلام قبول کیا‘ نبی ﷺ نے مجھے (اپنے پاس آنے سے) کبھی نہیں روکا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا تو آپ مسکرائے۔‘‘ (صحیح البخاری‘ الأدب، باب التبسم والضحک ، حدیث 6089)
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: ’’کیا رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہنستے تھے؟‘‘
تو انہوں نے کہا: ’’ہاں! لیکن ان کے دلوں میں ایمان پہاڑ سے زیادہ سخت تھا۔ ‘‘ (شرح السنۃ : 318/12)
مطلب یہ کہ وہ ہنستے ضرور تھے لیکن ایمان کے دائرے میں رہتے ہوئے‘ اخلاقی قدروں کی پابندی کرتے ہوئے۔ وہ بلاوجہ اور فضول نہیں ہنستے تھے۔
ہنسنے سے دل کو تقویت ملتی ہے اور طبیعت میں بشاشت آتی ہے لیکن اس میں چند باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا جانا چاہیے۔ اوّل یہ کہ کسی کا مذاق اُڑا کر ہنسی کا موقع نہیں پیدا کرنا چاہیے۔بے ہودہ لطیفہ بازی اور فحش گفتگو کی مدد سے اہلِ مجلس کو ہنسانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ کسی کی ہکلاہٹ یا تتلاہٹ کو نشانہ بنا کر سامانِ تضحیک پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا خوش طبعی نہیں بدذوقی ہے۔ اسلام کسی کی دل آزاری کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح دوا کو کسی خاص مقدارِ خوراک سے زیادہ پی لینا یا کھا لینا ضرر رساں ہوتا ہے‘ اسی طرح حد سے زیادہ ہنسنا اور قہقہے لگانا بھی پسندیدہ فعل نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ ایک حدیث میں نبی رحمت ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
’’بہت زیادہ نہ ہنسا کرو ‘ بلاشبہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذی‘ الزھد‘ باب من اتقی المحارم فھو أعبدالناس‘ حدیث: 2305)
اسی کو اعتدال کہا جاتا ہے ۔ قرآنِ مجید میں تمسخر اُڑانے کے انداز میں ہنسنے کی ان الفاظ میں حوصلہ شکنی کی گئی ہے:
ترجمہ: ’’اور جب وہ (موسیٰ علیہ السلام) ان کے پاس (اپنے برحق ہونے کی) نشانیاں لے کر آئے تو وہ ان نشانیوں کو تمسخر اُڑانے لگے۔ ‘‘ (الزخرف 47:43)
چہرے کو مسکراہٹ سے سجانے کی تلقین کرتے ہوئے آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا:
’’نیکی کے کسی بھی کام کو بھی حقیر مت سمجھنا ‘ اگرچہ تو اپنے (مسلمان) بھائی کو خندہ روئی کے ساتھ ملے (مسکراتے ہوئے ملنا بھی نیکی ہے)۔ ‘‘ (صحیح مسلم ‘ البروالصلۃ، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عنداللقاء، حدیث: 2626)
ممتاز مصنف احمد امین نے اپنی کتاب ’’فیض الخاطر‘‘ میں لکھا ہے:
’’جو لوگ ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہیں‘ وہ نہ صرف اپنی زندگیوں کو خوشگوار تر بنا لیتے ہیں بلکہ ان کے اپنے شعبوں کی کارکردگی بھی بہتر ہو جاتی ہے اور ان کے فرائض کی بجا آوری کا معیار بھی بلند تر ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ مشکلات پر آسانی سے قابو پا لیتے ہیں اور ان کی صلاحیت کار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سے انہیں بھی فائدہ پہنچتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ ‘‘