کاش! میں وہاں نہ رکا ہوتا
اپنی کہانی سے آپ کو باخبر کرنے کے خیال سے ذلت اور پستی کا خیال دل میں ابھر آتا ہے۔ یہ منشیات کی لعنت تھی جس نے میرے ہوش و حواس گنوا دیے۔ میرا تعلق ایک انتہائی شریف اور متوسط فیملی سے تھا، گزر بسر بہت اچھی ہو رہی تھی۔ سات بہن بھائیوں میں میرا دوسرا نمبر تھا ، مجھ سے بڑی بہن سارہ تھرڈ ایئر میں جب کہ میں سیکنڈ ایئر میں تھا۔ میں انجینئر بننا چاہتا تھا ‘ والدہ مجھے پائلٹ بنانا چاہتی تھیں جب کہ والد مجھے پی ایچ ڈی کرانا چاہتے تھے۔
میری تعلیمی کیفیت قابلِ اطمینان تھی۔ والدین کی دی ہوئی آزادی کا میں نے غلط فائدہ اٹھایا اور غلط مجالس میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا‘ والد سخت گیر تھے ، اس لیے بہن اور والدہ ان سے چھپاتیں تاکہ مجھے سزا نہ ملے۔ ایک رات میں گیارہ بجے جب کہ والد صاحب کی واپسی کا ٹائم ہونے والا تھا گھر لوٹنے لگا تو دوست نے آدھا گھنٹہ رکنے کا کہا اور میں اس کے اصرار پر ٹھہر گیا‘ کاش کہ میں نہ ٹھہرا ہوتا کیونکہ اس آدھے گھنٹے نے میری زندگی کو نہایت غلط رخ پر ڈال دیا۔
اس نے چائے میں نشہ آور گولیاں ملا کر ہمیں پلا دیں جو کہ ہمیں سرور کے ایسے جہان میں لے گیا جس سے ہم پہلے ناآشنا تھے اور میں یہ بھی بھول گیا کہ مجھے آدھے گھنٹے بعد گھر بھی جانا ہے۔ اگلے دن کالج میں دوست سے پوچھنے پر پتا چلا یہ نشہ آور گولیاں اس کے بڑے بھائی استعمال کرتے ہیں ‘ اس نے سوچا کہ ہمیں بھی چیک کرنی چاہئیں۔
پہلے پہل تو ہم ہفتہ میں ایک آدھ بار ، پھر دو بار اور پھر تین بار اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک دن بھی ان کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ہم بہانے سے گھر سے زیادہ سے زیادہ پیسے نکلواتے اور منشیات استعمال کرتے۔ ہماری ساری توجہ تعلیم سے ہٹ گئی تھی اور کلاس میں بھی غنودگی چھائی رہتی۔ ہمیں پتا نہیں ہوتا تھا کہ استاد کیا کہہ رہا ہے‘ ہمارا تعلیمی معیار کیوں گر رہا ہے اور کاش انتظامیہ ہماری والدین سے اس سلسلے میں رابطہ کرتی تو شاید ہم مکمل تباہی سے بچ جاتے اور سنبھل کر دوبارہ اچھے طالب علم بن جاتے۔
ہماری تعلیمی حالت کے باعث والد نے آرٹس کے مضامین میں ایک کمتر تعلیمی ادارے میں داخلہ کروا دیا ۔ اب کہاں کا انجینئر ، کہاں کا پائلٹ اور کہاں کی پی ایچ ڈی ؟ سب خواب چکنا چور ہو گئے۔ اپنی بہن سارہ کے فرسٹ ڈویژن میں پاس ہونے پر اس سے تحفے کا پوچھا تو اس نے کہا کہ میرے لیے سب سے بڑا تحفہ یہی ہے کہ اپنی اصلاح کرلو‘ پہلے کی طرح اچھے طالب علم بن جائو اور برے دوستوں کی رفاقت ترک کردو۔
جب سارہ کی جانب سے میرا بھانڈا پھوڑنے کی دھمکی دی گئی تو میں نے برے دوستوں کے مشورے سے نشہ آور ایک گولی چائے میں ملا کر سارہ کو پلا دی۔ میرا ضمیر ملامت کر رہا تھااور میںدو دن گھر نہ گیا جب دو دن بعد گھر گیا تو والد نے خوب ٹھکائی کی۔ پھر رفتہ رفتہ سارہ بھی ان نشہ آور گولیوں کی عادی ہو گئی اور تعلیم ترک کر دی۔
گھر والوں نے زیادہ نوٹس نہ لیا کیونکہ لڑکیوں کی زیادہ ذمہ داری امور خانہ داری ہوتی ہے۔ ایک روز جب میرے پاس پیسے نہ تھے اور دوستوں سے منشیات کا تقاضا کیا تو انہوں نے ذلت آمیز شرط رکھی کہ اپنی بہن سارہ کو ہمارے پاس لے آئو مطلوبہ چیز مل جائے گی۔ میں نے دوست کا گریبان پکڑ لیا اور گالیاں دیتے ہوئے کہا اگر دوبارہ ایسی بات کی تو خون پی جائوں گا۔
دیگر دوستوں نے بچ بچائو کرا دیا۔ کچھ دن تو صبر کیا لیکن نشہ کی طلب نے ہم دونوں کو پاگل بنا دیا تھا، جھجکتے جھجکتے سارہ سے دوست کی فرمائش کا تذکرہ کیا‘ وہ جو نارمل حالت میں ایسی بات کرنے والے کا منہ نوچ لیتی تھی نشے نے اسے وحشی بنا دیا تھا اور وہ نشے کے حصول کیلئے عزت دائو پرلگانے کیلئے تیار ہو گئی۔ ہم دونوں شرف، عزت اور غیرت کوخیرباد کہتے ہوئے دوست کے گھر پہنچے جس نے اپنی طلب پوری کرنے کے بعد ہمیں نشہ فراہم کر دیا ، ہم ظہر سے عشاء تک مست حالت میں وہاں پڑے رہے۔ کاش ! میری زندگی میں یہ دن نہ آیا ہوتا۔ کاش ! میں اس دن سے پہلے مر چکا ہوتا۔ کاش! سارہ ہماری زندگی میں نہ ہوتی۔ کاش! میں نے سارہ کو اس نشے کی لت پرنہ لگایا ہوتا۔
پھر اس شخص نے سارہ کواپنے خاص نمبر بھی د ے دیا تھا ۔ اس کے بعدسارہ کو درمیان میں ہمارے رابطے کی ضرورت نہ رہی تھی اور وہ مختلف بہانوں سے گھر سے غائب ہو جاتی تھی۔ سارہ نے سوچا کب تک مختلف حیلوں بہانوں سے گھر سے نکلتی رہوں گی ‘کوئی مستقل انتظام ہونا چاہیے۔ اس نے گھر والوں سے کہا: میں اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہوں ۔ گھر والے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ اب ہم حیوانوں والی بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے تھے۔
ایک منحوس صبح نو بجے کے قریب پولیس میرے والد کے دفتر پہنچی اور ایک جان لیوا، دلخراش اور ذلت آمیز حادثے کی اطلاع دی کہ میری بہن سارہ شہر سے باہر ریسٹ ہائوس میں ایک نوجوان کے ساتھ مقیم تھی ، نشہ کی زیادہ مقدار استعمال کرنے کی وجہ سے دونوں کی موت واقع ہو گئی ہے۔ ایک انتہائی معزز خاندان پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ میرے والد اس صدمے کی تاب نہ لا سکے اور چند دن انتہائی تکلیف اور اذیت میں گزار کراللہ کو پیارے ہو گئے‘ صدمے کی وجہ سے والدہ کی زبان بھی ہمیشہ کیلئے بند ہو گئی۔
یا اللہ میں نے اپنے خاندان کو کس تباہی سے دوچار کر دیا تھا۔ عفت مآب ، عابدہ، صالحہ ، تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم کیلئے سرگرم سارہ میری وجہ سے طوائف بن گئی تھی۔ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا اور سب رشتہ داروں سے ناتہ توڑ لیا۔ والد کی وفات کے بعد گھریلو اخراجات پورے کرنے کا مسئلہ تھا۔
بھائیوں کی تعلیم چھوٹ گئی‘ گھر بک گیا اور ہم چھوٹے سے کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہو گئے۔ ان سارے حادثات کا ذمہ دار میں تھا۔ کئی مرتبہ نشہ چھوڑنے کی کوشش کی لیکن نشہ میری ہڈیوں میں رچ بس چکا تھا۔ کئی دن ضبط کرتا لیکن پھر ہمت جواب دے دیتی۔
گھروالوں سے کہا کہ میرے یہاں زندگی بہت تلخ ہے کسی اور جگہ جا کر نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہتا ہوں ۔ گھر سے سیدھا ہسپتال پہنچا اور علاج شروع کروا دیا۔ جب ہوش آیا تو سارا آشیانہ اجڑ چکا تھا ، اپنے خاندان کی زندگی تباہ‘ اپنی بہن سارہ ؟ آہ ! سارہ کی زندگی تباہ۔ والد کی زندگی چھن گئی‘ والدہ کی قوت گویائی جاتی رہی۔
اب میرا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ میں ہر وقت روتا رہتا ہوں‘ کسی کو اندازہ نہیں میرے دل پر کیا گزر رہی ہے‘ میں کس کرب میں مبتلا ہوں۔ میرے جرائم تو ایسے ہیں کہ مجھے پتھر مار مار کر ختم کر دینا چاہیے ۔ شاید اس سے بھی پوری طرح میرے گناہوں کی تلافی نہ ہو سکے۔
یہ آب بیتی بیان کرنے کا مقصد اپنے بہن بھائیوں کو منشیات کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنا ہے جس نے ہمارے کئی گھروں کو برباد‘ عصمتوں کو نیلام کر دیا اور محلات سے نکال کر باہر سڑکوں پر ڈال دیا۔