گالی دینے والے کی سماج میں مجروح حیثیت

گالی دینے والا اپنے تیئں تو اپنی برتری ثابت کرتا ہے ، اپنی انا کو تسکین دیتا ہے ، بہت سے لوگ اس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ میں بڑا زور آور ہوں، کسی کو گالی دے دوں تو اس کی کیا مجال کہ جواب دے ، لوگ اس سے دب یا ڈر جاتے ہیں ، پھر اس کے سامنے کوئی بولتا نہیں۔ گالی دینے والے کو سوچنا چاہیے کہ گالی کے اثرات کیا ہیں؟ کبھی تو جس کو گالی دی جاتی ہے وہ طیش میں آکر کسی قسم کی جوابی کارروائی کرسکتا ہے یا پھر کسی موقع کی تلاش میں رہتا ہے ، گالی دینے والا اپنے دشمن زیادہ کر دیتا ہے ،خو دکو معاشرہ میں بد اخلاقی کے نام سے متعارف کروا دیتا ہے۔ لوگوں کی نظر میں اس کی حیثیت گر جاتی ہے۔ خاص کر بڑے بڑے عہدے والوں اور صاحب حیثیت لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ مثلاً استاذ ، والدین ، مرشد اور علمائے کرام وغیرہ ہرگز کسی کو گالی نہ دیں ، نہ سامنے اور نہ پیٹھ پیچھے۔ بعض لوگ کسی کو سامنے گالی نہیں دے سکتے ، جن کو گالی دینا ہو وہ چلا جائے یا خود دور چلا جائے تو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں ، یہ بھی گناہ ہے۔ ضروری نہیں کہ جس کو گالی دے رہا ہے وہ سن بھی رہا ہو اور لوگ تو سن رہے ہیں کہ فلاں کو گالیاں دے رہا ہے۔ بعض اوقات سننے والے اس بندے کو اطلاع کر دیتے ہیں جس کو گالیاں دی تھیں۔ اس کو جب پتہ چلتا ہے تو انتقامی کارروائی پر اتر آتا ہے۔ گالی کسی بھی حالت میں نہیں دینی چاہیے، کیوں کہ اس کے اثرات کسی بھی وقت ظاہر ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے اثرات ظاہر نہ ہونے پائیں تو گناہ والی حیثیت تو کبھی بھی ختم نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق یعنی گناہ ہے۔ بڑے لوگوں کی حیثیت تو بہت جلد مجروح ہوجاتی ہے۔ بڑے لوگوں کا معاشرہ میں ایک نام ہوتا ہے ، لوگوں کے دلوں میں قدر ومنزلت ہوتی ہے لیکن گالی دینے کے ساتھ اس کی حیثیت دھڑام سے نیچے آگر تی ہے۔ لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے۔ اگر گالی دینے والا صرف یہ سوچے کہ میری گالیوں سے خود میری حیثیت مجروح ہوتی ہے، لوگوں کی نظروں میں گر رہا ہوں تو شاید اس کے علاج کے لیے یہی کافی ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button