بیٹی، ڈانسر ماں کی ہدایت کا ذریعہ بن گئی

زیزی مصطفیٰ مصر کی انتہائی معروف ڈانسر تھی ۔ اسے ایک انٹرویو کے عوض خطیر رقم مل جاتی تھی۔ یہ پیشہ شوق کے ساتھ اس کی مجبوری بھی تھا کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے وہ اپنی بیمار والدہ اور بہنوں کی کفالت بھی کرتی تھی۔ جب وہ ایمان کی حلاوت سے آشنا ہوئی تو اُسے احساس ہوا کہ دنیا کی ساری نعمتیں اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔

زیزی مصطفی کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی تو اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اسے خیال آیا کہ بیس سال سے جو نماز اس نے ترک کر رکھی ہے وہ اسے بھی شروع کرے۔ گو کہ وہ نماز کا اصل طریقہ بھول چکی تھی بہرحال غلط سلط جیسا بھی طریقہ اسے آتا تھا‘ اس نے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ نماز شروع کرنے کے بعد اس میں یہ شعور آیا کہ اسے بیٹی کی کفالت حرام مال سے نہیں کرنی چاہیے۔

زیزی پیدائشی مسلمان تھی‘ چاہے اس کا تعلق اسلام سے واجبی سا تھا اور جس شعبہ سے وہ وابستہ تھی اُس نے اس نقش کو خاصا معدوم بھی کر دیا تھا۔ لیکن بیٹی کی پیدائش کے بعد ایمان کے اثرات تقویت حاصل کرنے لگے۔ اب اسے نماز میں لذت محسوس ہونے لگی ۔ نماز پڑھتے ہوئے اس پررقت طاری ہو جاتی اور کئی بار یہ نوبت بھی آتی کہ وہ زار و قطار رونے لگتی۔

دوسری جانب زندگی کی تلخ حقیقت یہ تھی کہ وہ ڈانس کے پیشے سے وابستہ تھی ۔ اگر کنٹریکٹ ختم کرتی تو جرمانے اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔

اس گومگو کی کیفیت میں وہ اپنے پرانے کام کی جانب لوٹ گئی۔ کبھی اس پر روحانیت غالب آ جاتی تو کبھی زندگی کے تلخ حقائق کا غلبہ ہو جاتا۔ سوچتی کہ یہ دھندا چھوڑ دیا تو بیمار والدہ کا علاج ‘ بہنوں کی کفالت کیسے کروں گی ؟ خیال آتا کہ یہ شعبہ چھوڑوں گی تو ساری آن بان ختم ہو جائے گی ‘ یہ پیشہ تمہاری آمدنی کا واحد ذریعہ ہے ‘ حلال حرام کے جھنجھٹ میں نہ پڑو۔ اس دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی سنجیدہ وارنگز بھی ملیں لیکن زیزی مصطفی سنبھل نہ سکی۔

پہلی وارننگ ایک ایکسیڈنٹ تھا جس میں زیزی کے پائوں اور ٹخنے کے درمیان ربط قائم رکھنے والی شریان کٹ گئی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ عمر بھر کیلئے معذور ہو جائے گی۔ ڈاکٹرز بھی مایوس ہو چکے تھے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے اس کا پائوں بالکل ٹھیک رہا۔ زیزی مصطفی نے اللہ کی اس بڑی وارننگ کو نظر انداز کر دیا اور دوبارہ نائٹ کلب کی رونق بننے لگی۔

ایک روز زیزی کی بیٹی سکول سے روتی آئی کہ میری ایک کلاس فیلو نے کہا ہے کہ تمہاری ماما بہت گندی ہیں ‘ لوگوں کے سامنے ناچتی ہیں۔ یہ سن کر زیزی مصطفی بھی رونے لگی کہ میں تو اس تلخ حقیقت سے نظریں چراتی رہی لیکن اب معصوم بچی کہاں تک ان طعنوں کو سہہ پائے گی۔ مجھے ایسا باوقار شعبہ اختیار کرنا چاہیے کہ میری بیٹی سر اٹھا کر معاشرے کا سامنا کر سکے۔

زیزی کہتی ہیں کہ میں ڈانس کو چھوڑنے کی ادھیڑ بن میں تھی کہ میری عزیز از جان بیٹی بیمار پڑ گئی اور مجھے طرح طرح کے وسوسوں نے گھیر لیا۔ میں نے جائے نماز بچھائی اور اللہ سے رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ اللہ نے مجھ پر رحم کیا اور میری بیٹی کو صحت یاب کر دیا۔

اب میں ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھی اور میرا دل نور ایمان سے پوری طرح منور ہو چکا تھا۔ مجھے اب ڈانس کے پیشے سے گھن آنے لگی کیونکہ ایمان اور فسق و فجور ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ آخری دنوں میں ڈانسنگ ڈریس مجھے کانٹوں کی طرح چبھتا تھا۔

اس قبیح سے جان چھڑائی تو مجھے ایسی راحت ملی جس سے میں آج تک ناآشنا تھی۔ ایسا لگتا تھاکہ ذہن سے منوں بوجھ اتر گیا اور اپناوجود انتہائی ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا۔ مکروہ دھندہ چھوڑنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انتہائی مختصر مدت میں مجھے دو بار عمرہ کی سعادت بخشی۔ میں اب زیزی کے بجائے زینب مصطفیٰ تھی‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سال حج کی سعادت بخشی اور میں نے رو رو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔

حج سے واپسی پرمجھے دوبارہ اسی گناہ والی زندگی کی طرف لوٹانے کی کوشش کی گئی ‘ کئی گنا زیادہ معاوضے، اخراجات کے علاوہ ماہانہ دس ہزار ڈالر‘ نئے ماڈل کی گاڑی ‘ رہنے کیلئے فرنشڈ گھر کی پیش کش جو میں نے یکسر مسترد کر دی۔ میرا انکار ان کیلئے حیرانی کا باعث تھا۔ مجھے شہرت اور لگژری لائف کی ترغیبات دلائی گئیں لیکن میں نے ہر دلیل کو سختی سے مسترد کردیا۔

آخر میں مجھے یہ پیش کش کی گئی کہ میں صرف خواتین کے درمیان اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پر راضی ہو جائوں ۔ مجھے دو گھنٹے کا معاوضہ پچاس ہزار ڈالر ملے گا ۔ یہ اتنی بڑی پیش کش تھی کہ ایک ڈانسر اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے بلاتامل کہا: میں ایسی دولت پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتی ہوں۔ یہ حربہ ان کی طرف سے آخری مکر وفریب ثابت ہوا ‘ اس کے بعد وہ میری طرف سے مایوس ہو گئے اورمزید ترغیبات کا سلسلہ مکمل طور پر رک گیا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button