دنیا کے امیر ترین شخص کی آخری خواہش

اوناسس ایک یونانی تاجر تھا جو دنیا کی سب سے بڑی جہاز رانی کمپنی کا مالک تھا، زیتون کا کاروبار کرتا تھا، اسے دنیا کے امیر ترین شخص ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

امریکہ کی خاتون اول جیکو لین کینیڈ سے اس نے شادی کی۔ کاروبار زوال کا شکار ہوا اور مر گیا۔

اس کی پپوٹوں کے اعصاب جواب دے گئے تھے، وہ اپنی پلکیں نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کے پپوٹوں پر سلوشن ٹیپ لگا دی تھی جس کے باعث دن بھر اس کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں اور رات سونے کے وقت وہ سلوشن ٹیپ اُتار دیتا تھا۔ اس کے پپوٹے، اس کی پلکیں آنکھوں پر گر جاتیں، اندھیرا ہو جاتا اور وہ سو جاتا۔

صبح اُٹھ کر وہ دوبارہ ٹیپ لگوا لیتا۔ جب اس سے زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی گئی تو کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر دکھی لہجے میں بولا: ’’کاش میں ایک بار ، صرف ایک بار اپنی پلکیں خود اُٹھا سکوں۔‘‘ پوچھنے والا پوچھتا ہے: ’’اس خواہش کے عوض تم کیا دے سکتے ہو؟‘‘ اوناسس فوراً جواب دیتا ہے : ’’اپنی ساری دولت، اپنا سب کچھ۔‘‘

ہمارے رب کا کرم دیکھئے، ہم اپنی پلکیں خود اٹھا سکتے ہیں۔ ہماری پلکوں کی یہ حرکت اوناسس کی پوری دولت سے قیمتی ہے۔ پلکیں ہی کیا، ہمارے رب نے ہمارے جسم کو ایسی ایسی نعمتیں بخشی ہیں جن کا دنیا میں کوئی بدل نہیں۔ ان نعمتوں میں کوئی ایک کمی ہو جائے تو ہم دنیا بھر کے خزانے لٹا کر وہ نعمت دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے۔

دل ایک خود کار مشین کی طرح ہے جو کہ دن میں ایک لاکھ تین ہزار چھ سو اسی مرتبہ دھڑکتا ہے، یہ دھڑکنیں کم یا زیادہ ہو جائیں تو ہماری زندگی کا سارا ربط ٹوٹ جائے۔ یہ درست ہے کہ اب ہم مصنوعی دل لگوا سکتے ہیں لیکن اس کے بعد … زندگی کس قدر خوفناک ہو جاتی ہے ہم اس کا تصور نہیں کر سکتے۔
ہماری آنکھیں ایک کروڑ دس لاکھ رنگ دیکھ سکتی ہیں ، آنکھیں رنگوں کی شناخت کی یہ صلاحیت کھو دیں تو دنیا کا سارا سونا، انسان کے اس رنگ کو نہیں لوٹا سکتا۔
ہماری زبان جیسی کوئی مشین ایجاد نہیں ہوئی جوذائقہ بتا سکے ، جو لیموں کی ترشی اور سیب کی مٹھاس میں فرق کرسکے۔
قوتِ گویائی ہے۔ سائنس نے ابھی تک ایسا آلہ نہیں بنایا جو گونگے کے منہ سے لفظ نکال سکے۔
ہونٹ نہ ہوں تو ہم کھا سکتے ہیں، پی سکتے ہیں اور نہ ہی پوری طرح بول سکتے ہیں۔ 35فیصد لفظ ادائیگی کے لیے ہمارے ہونٹوں کے محتاج ہیں۔

لعابِ دہن ہے، دنیا میں ابھی تک کوئی ایسا کیمیکل ایجاد نہیں ہوا جو منہ میں لعاب پیدا کر سکے ۔ جن کا لعاب دہن ختم ہو جاتا ہے وہ ہاتھ میں ہر وقت پانی کی بوتل رکھتے ہیں ، انہیں ہر دو منٹ بعد اپنی زبان گیلی کرنا پڑتی ہے۔

انسانی ناک تین ہزار خوشبوئیں سونگھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، خوشبو کی حس کھو جائے تو دوبارہ نہیں ملتی۔
پھیپھڑے دن میں پندرہ ہزار بار سانس لیتے ہیں ، سانسوں کی یہ تعداد کم یا زیادہ ہوجائے تو انسان ادھ موا ہو جاتا ہے۔

یقین کیجئے! ہمارا ایک ایک سانس، ہمارے بدن کا ایک ایک لمحہ اس کے کرم، اس کے رحم اور اس کی عنایتوں کا اعلان ہے جس پر اس کی عنایت اور رحم و کرم کے سلسلے بند ہو جاتے ہیں وہ شاہ ہو یا گدا، اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے، دکھوں سے بھر جاتی ہے۔ انسان گڑگڑا کرموت طلب کرتا ہے لیکن موت اپنے وقت سے پہلے تو نہیں آ سکتی‘ اور بس انسان دکھوں کی بے رحم وادی میں جلتا مرتا، کڑھتا ، کراہتا ہی رہتا ہے اور دنیا اس کے لیے عذاب گاہ بن جاتی ہے۔

ایسی مصیبتوں کے وقت کون کسی کی سنے؟ کون بندوں کے دکھ دور کرے؟ دن رات رب تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے والے کی کب سنی جائے گی؟

ہاں اس کریم کاکرم ہے وہ جس پر کرنا چاہے تو کوئی اسے روک بھی نہیں سکتا۔ ورنہ تو میرا رب انہی کی مانتا ہے جو میرے رب کی مانتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button