خفیہ نکاح اور اندھے قتل کا انجام
پانچ سال کے طویل انتظار کے بعد جب دارین کو اپنے جسم میں تبدیلی محسوس ہوئی تو چیک اپ پر پتا چلا کہ وہ حاملہ ہے تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ نو ماہ جیسے تیسے گزارنے کے بعد اُس نے بیٹے کو تولد کیاجس کا نام محمد رکھا گیا۔ دارین گھر سے دور تھی اس لیے بیماری کے دوران دیکھ بھال کیلئے ایک قلاش بڑھیا کی خدمات حاصل کی گئی۔ پہلے تو بڑھیا اکیلی آتی رہی لیکن پھر اس کی نوجوان بیٹی بھی اُن دونوں کی اجازت سے آنے لگی۔
جب لڑکی نے کچھ دن بعد بن سنور کے آنا شروع کیا تو دارین نے عجیب جانا اور نہ آنے کا کہا لیکن خاوند درمیان میں آ گیا کہ چالیس روز تک آنے دے ‘ تیری خدمت کرے پھر چلی جائے گی۔ پھر دارین کے قریب رہنے کے لیے خادمہ رات کو بھی اُدھر ہی رکنے لگی۔ سینتیس دن گزرے تو دارین کو بخار چڑھا ‘ اس کا خاوند صبح صبح ہی اس سے حال احوال پوچھے بغیر چلا گیا تھا۔ اُس نے خادمہ کو اُس کے سونے والے کمرے اور دیگر جگہ تلاش کیا لیکن پتا نہ چلا۔
اس خیال سے وہ دوسری منزل پر صفائی کر رہی ہو گی ‘ دارین سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر گئی تو خادمہ کو سلیپنگ ڈریس میں اپنے بیڈ پر پایا۔ وہ چلائی: تجھے شرم نہیں آتی اس طرح سو رہی ہومیرے کمرے میں اور وہ بھی ایک اجنبی آدمی کے گھر میں؟ وہ بولی: سوچ کر بات کرو‘ غلطی مت کھائو‘ یہ میرا خاوند ہے‘ ایک ہفتہ پہلے اس نے میرے ساتھ نکاح کر لیا ہے۔
ان کی باہمی لفظی تکرار اور لڑائی ہو گئی۔ چند گھنٹوں بعد خاوند آیا اور خادمہ کو جو اس کی دوسری بیوی بھی تھی نے دیکھا کہ وہ ننھے محمد کو کندھے پر اٹھائے سہلا رہی تھی۔ اُس نے دارین کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگی کہ اوپر والے پورشن میں ہو گی‘ جب وہ اوپر والے پورشن میں پہنچا تو اسے زمین پر گرے ہوئے پایا اور اس کے پیٹ سے خون پھوٹ رہا تھا۔ اُسے ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ڈاکٹر نے بتایا کہ دارین فوت ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا؟
بتایا کہ دروازہ کے دستے پر گر گئی تھی اور اس کا کنارہ اس کے پیٹ کو چھیر گیا۔ چنانچہ لکھ دیا گیا کہ یہ اللہ کی تقدیر اور فیصلے سے ہو گیا اور دارین کے ساتھ یہ راز بھی دفن ہو گیا۔
دارین کی فوتگی کے بعد اُس کی ماں ‘ بھائی اور بہن آئے۔ انہوں نے گھر میں نوجوان لڑکی کو دیکھا تو انہیں دارین کی طبعی موت پر شک گزرا ‘ انہوں نے جمالات کی طرف دیکھ کر کہا : ابو محمد سنو! اگر حقیقت مخلوق سے چھپ گئی ہے تو خالق سے قطعاً نہیں چھپ سکتی۔ ابومحمد اُن کی ضیافت کا ارادہ رکھتا تھا لیکن انہوں نے محمد کو ساتھ لے جانے اور پرورش کی اجازت چاہی۔ باپ کو کوئی اعتراض نہ ہوا اور کہا کہ ہر مہینے اس کا خرچ آپ کو پہنچ جایا کرے گا۔ بچے کا ماموں بولا کہ اس کی ضرورت نہیں ۔ نانی ‘ ماموں اور خالہ بچے کولے کر چلے گئے۔ جمالات اس وسیع بنگلے میں اکیلی رہ گئی تھی۔
وقت گزرتا رہا ‘ جمالات کا حسن روز افزوں بڑھتا جارہا تھا‘ وہ ہر سال ایک بچے کو تولد کرتی اور اُس کے پاس آٹھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہو گئیں۔ ایک دن جمالات نے خاوند سے اصرار کر کے تفریحی مقام پر جانے کیلئے کہا۔ راستے میں ایک نشیب میں اترتے ہوئے گاڑی ٹرک سے ٹکرائی اور جمالات اور اس کے بڑے بیٹے کے سوا کوئی بھی زندہ نہ بچا، وہ شدید زخمی ہوئی اور خاندان پر ٹوٹنے والی قیامت کا علم ہوا تو وہ بے ہوش ہو گئی‘ آدھے جسم کو فالج ہو گیا اور وہ تین سال ہسپتال میں پڑی رہی ‘ جب کہ بیٹے کو دو ماہ بعد ڈسچارج کر دیا گیا۔
جب ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی تو وہ متحرک کرسی پر تھی ‘ بیٹا لینے آ رہا تھا تو راستے میں حادثے کا شکارہو کر چل بسا۔ اب وہ دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی‘ ہسپتال کے عملے کے رابطہ کرنے پر اس کا باپ اور بھائی آ کر اسے لے گئے۔ محمد جو اس کے خاوند کا بیٹا تھا آ کر اپنے باپ کی جائیداد لے گیا۔ اس کے ساتھ اس کی نانی (دارین کی ماں) بھی تھی ۔
جب جمالات نے اسے دیکھا تو وہ پھوٹ کر رو پڑے اور بولی: خالہ تجھے یاد ہے کہ تو نے کہا تھا کہ اگر مخلوق سے حقیقت چھپ سکتی ہے تو خالق سے تو قطعاً نہ چھپ پائے گی۔ اس نے کہا: ہاں‘ اس پر جمالات بولی: مجھے اجازت دیں کہ میں حقیقت سے پردہ اٹھائوں۔ میں نے ہی دارین کو قتل کیا تھا۔ وہ بیمار تھی میرے مقابلے کی سکت نہ رکھتی تھی‘ میں نے اسے در وازے کے دستے کے اوپر دبایا تھا ‘ خون کا فوارہ پھوٹ پڑا تھا اور وہ بے بس ہو کر گر پڑی تھی۔
جب مجھے اس کی موت کا یقین ہو گیا تو میں نیچے آ گئی اور ننھے محمد کو گود میں لے لیا۔ کئی سال بیت گئے اور دیکھو! مجھے اپنے فعل کی سزا مل گئی ۔یقیناً اللہ نے مجھ سے بہت سخت انتقام لیا ہے۔ میں شوہر ‘ بچوں سب سے محروم‘ اپنے شباب اور تندرستی کو گنوا دیا اور اب خالہ جان ! آپ مجھے معاف کر دو۔ دارین کی ماں نے کہا: یہ دنیا کی سزا ہے میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ تمہیں آخرت کی سزا بھی دے اور تجھ سے انتقام لے۔
جمالات اپنے گھر والوں کے پاس رہ گئی ‘ باپ فوت ہو گیا ‘ بھائی باقی رہ گیا۔ بھائی نے وکیل کے طور پر جمالات کا سارا مال و متاع اپنے نام پر کر لیا اور اُسے لہو و لعب اور عیاش پرستوں میں اڑا دیا۔ جمالات اہل خیر کے صدقات و زکوٰۃ کی مرہون منت ہو کر رہ گئی یہاں تک کہ ایک دن تن تنہا موت کی وادی میں چلی گئی۔ اس کی موت کا علم بھی اس وقت ہوا جب اس کے جثے سے بدبو اور کمرے سے تعفن پھیلنے لگا۔ ظالم اپنا بدلہ ایسے ہی پاتا ہے اور آخرت کا عذاب تو زیادہ سخت اور باقی رہنے والا ہے۔