ملک الموت کو کن دو لوگوں پر رحم آیا؟
ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا کہ تم نے بے شمار روحیں نکالی ہیں۔ دن رات کا یہی مشغلہ ہے۔ یہ بتاؤ کہ کبھی کسی کی روح نکالتے ہوئے رحم بھی آیا؟ فرشتے نے عرض کیا کہ صرف دو آدمیوں پر رحم آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کون ہیں جن پر تم کو بھی رحم آگیا؟ فرشتے نے کہا کہ ایک مرتبہ ایک سمندری جہاز جس میں عورتیں‘ بچے سب سوار تھے ‘ سمندر میں سفر کر رہا تھا۔ طوفان آ گیا اور جہاز ڈوب گیا۔ کچھ لوگ غرق ہو گئے اور کچھ لوگ تختوں پر تیرتے ہوئے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ انہی جہاز والوںمیں ایک حاملہ عورت تھی‘ کشتی کا ایک بڑا تختہ اس کے ہاتھ آگیا تھا۔ اندھیرے اور طوفانی رات اور سمندر کے بیچوں بیچ وہ عورت تختے سے چمٹی رہی۔ اسی حالت میں اس نے بچے کو جنم دیا اور بچے کو اپنے سینے سے لپٹا لیا۔ بچے کے کھانے پینے کا سامان تھا نہ حفاظت کا کوئی بندوبست۔ اس حالت میں اے بزرگ و برتر ذات! آپ کا حکم یہ تھا کہ اس عورت کی روح قبض کر لی جائے۔ اے اللہ! میں نے روح تو قبض کر لی لیکن آج تک رحم آتا ہے اور یہی سوچتا ہوں کہ نہ جانے اس بچے کا کیا ہوا ہوگا؟
اللہ جل شانہ نے پوچھا تجھے دوسری مرتبہ کس پر رحم آیا؟
ملک الموت نے عرض کیا کہ شداد نامی آپ کا نافرمان بندہ تھا جسے آپ نے بادشاہت اور مال ودولت کی فراوانی عطا فرمائی تھی۔ اس نے کہا کہ میں دنیا میں جنت بناؤں گا‘پھر اس نے جنت بنانا شروع کی اور اربوں کھربوں دینار خرچ کرتا رہا اور اس نے طے کر لیا کہ جنت پوری تیار ہوجانے کے بعد ہی اس میں داخل ہو گا۔ برسوں انتظار کے بعد جب جنت میں داخلے کا وقت آیا تو، ابھی اس کا ایک قدم اس کی جنت کے اندر اور دوسرا باہر تھا کہ آپ کا حکم ہوا کہ اس کی روح کو قبض کر لو۔ میں نے روح کو قبض کر لیا مگر آج تک رحم آتا ہے کہ اتنے برسوں کی محنت اور مال خرچ کرکے بھی اسے اپنی جنت دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے ملک الموت تجھے ایک ہی آدمی پر دو مرتبہ رحم آیا ہے۔ تجھے معلوم نہیں کہ یہ شداد وہی بچہ تھا جس کی ماں کی روح تو نے اندھیری اور طوفانی رات میں قبض کی تھی۔ ہم نے اپنی رحمت واسعہ اور شان ربویت سے بچہ کو بچا لیا اور پال پوس کر پروان چڑھایا۔ اسے ذہانت و فطانت دی‘ صحت ‘ طاقت اور عزت عطا کی۔ یہاں تک کہ بادشاہ بنا دیا اور جب بادشاہ بنا تو ہمارے مقابلے میں جنت کی تعمیر شروع کر دی۔