وہ لمحہ جس کا مدتوں انتظار کیا
امل اپنے شوہر وسیم کی شخصیت سے متاثر تھی ‘ لیکن شوہر نے نہ اسے مناسب ماحول اور وقت فراہم کیا۔ جب کبھی وہ اپنے شوہر کی کاروباری کامیابیوں کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہتی تو وسیم کہتا: ’’تم اس شاندار بنگلہ کی مالکن ہو‘اپنا رنگ و روپ نکھارنے میں مصروف رہو لیکن کاروباری امور سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
امل کو یقین ہو گیا کہ اُس کے اور وسیم کے درمیان بلند و بالا دیواریں ہیں تو اُس کے جذبات کی یہ امید ٹوٹ گئی کہ دونوں کے درمیان محبت کا کوئی تعلق قائم ہو سکے گا۔ ایک روز صبح کاروبار کیلئے نکلنے سے پہلے وسیم کو اس کی خالہ زاد نے کال کی تو وسیم کی جانب سے کچھ زیادہ ہی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ کچھ آگے چل کر وسیم کا اپنی خالہ زاد کے لیے گرمجوشی میں مزید اضافہ ہونے لگا ‘وہ اکثر فون لے کر امل سے دور چلے جاتا ‘ جس پر بیوی کا اپنے شوہر کے طرز عمل پر ماتھا ٹھنکا۔ اب یہ گفتگو اور لطیف جذبات کا اظہار معمول بن گیا تو امل کے سینے میں شک کی آگ بھڑکنے لگی۔ ایک دن امل نے اپنے شوہر سے اس کی خالہ زاد جمیلہ کے بارے میں دریافت کیا تو اُس نے بتایا کہ جمیلہ بیرون ملک مقیم ہے۔ بیوی نے شوہر سے دریافت کیا کہ آپ کے خالہ زاد سے اس قدر رابطے کس سلسلے میں ہیں تو اُس نے بتایا کہ وہ بیوہ ہے اور اُس نے مشرقی محلہ میں اپنے مکان کی مرمت کا کام میرے سپرد کیا ہے۔ امل سوچتی کہ ممکن ہے کہ وسیم کے اپنی خالہ زاد کے ساتھ پرانے مراسم ہوں جو اُس کی بیوگی کے بعد پھر زندہ ہو گئے ہوں۔
ایک رات جب ڈیڑھ بجے کے قریب امل کی آنکھ کھلی تو اُس نے وسیم کو بستر سے غائب پایا ‘ اُس نے اُٹھ کر دیکھا تووہ اپنی بیوی سے چھپ کر خالہ زاد جمیلہ سے ہم کلا م تھا۔ وہ خالہ زاد کو اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ عنقریب ہماری شادی کی لاجواب تقریب ہو گی اور تم خوبصورت ترین دلہن بنو گی۔ یہ سن کر امل کو اپنی رگوں میں خون منجمد ہوتا ہوا محسوس ہوا ‘ وہ واپس پلٹی تو صوفے سے ٹکرا گئی۔ آواز سن کر وسیم وہاں آیا اور بولا: ’’امل تم اس وقت یہاں؟‘‘وہ بولی کہ ہاں میں ادھر ہوں تاکہ تمہارے منصوبوں کی تفصیل جان سکوں‘ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم مجھ سے یوںدھوکہ کرو گے۔ اگلے روز اُس نے اپنا ضروری سامان سمیٹا اور وسیم سے کہا کہ میں جا رہی ہوں۔ وسیم بولا کہ تم یہ کیا کر رہی ہو؟ وہ بولی کہ ویسے بھی تم مجھ سے جان چھڑانا چاہتا ہو‘ میں تمہارے لیے رستہ کھلا چھوڑ کے جا رہی ہوں تاکہ تم اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکو۔ کیا تم اپنی خالہ زاد سے شادی نہیں کرنا چاہتے؟ میں نے سب کچھ سن لیا ہے۔
وسیم نے اتنا زور کا قہقہہ لگایا کہ امل کو اپنی رگوں میں خون جمتا ہوا محسوس ہوا ۔ اس نے بیوی کے قریب ہوتے ہوئے کہا : ارے پگلی جمیلہ تو میری رضاعی بہن ہے‘ رہی بات شادی کی تو وہ میں اپنے ایک دوست کی جمیلہ سے شادی کے انتظامات کر رہا ہوں‘ گھر کی مرمت بھی اسے سلسلے کی ایک کڑی تھی تاکہ جمیلہ اپنے نئے شوہر کے ساتھ وہاں رہ سکے۔
یہ سن کر امل کی نظریں جھک گئیں‘ وہ شوہر سے آنکھیں نہیں ملا پا رہی تھی۔ امل نے شرمسار ہوتے ہوئے کہا: اس لیے کہ میں … اس لیے کہ میں … ہاں ہاں کہو‘ کس لیے‘ تم کیا چاہتی ہو؟
امل نے زمین پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا : اس لیے کہ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی تھی ۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔
وسیم نے محبت بھرے لہجے میںکہا: ہاں اور کیا؟
اب وہ لمحہ آن پہنچا تھا جس کا اس نے مدتوں انتظار کیا تھا… اب جو کچھ اس کے دل میں تھا ‘ وہ کہنے کا وقت آ گیا تھا۔ کانپتے لہجے میں وہ شوہر سے کہنے لگی: میں تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
وہ جوشیلے انداز میں چلایا: یا اللہ! یہ خوبصورت جذبات اس سے پہلے کہاں تھے؟ تم نے انہیں پہلے کیوں ظاہر نہیں کیا؟
اس لیے کہ تم نے کبھی مجھے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ امل نے غم ناک لہجے میں کہا۔ وسیم چند لمحے کھڑا ہو کر کچھ سوچتا رہا ‘ پھر ایک پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ اعتراف حقیقت کیا اور کہنے لگا: میں اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے اس قدر غافل رہا ۔ میں نے خود کو اپنی اہلیہ کے اتنے پاکیزہ جذبات و احساسات سے محروم رکھا۔
امل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: ایسا نہ کہیں۔ آپ تو میرے لیے بہت عظیم ہیں۔
وسیم نے بھی ایک نئی زندگی کی شروعات کرتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں اس سے کہا: تم بھی میری زندگی کی سب سے قیمتی اور اہم ترین ضرورت ہو۔ (حکایات خلف الابواب‘ ص 18-14، تالیف: سحر الناجیی)