امامت عالم کا راز
نومبر 1847ء کی چار تاریخ تھی۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک ڈاکٹر کے کمرہ میں اس کا ملازم داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر اور اس کے دو ساتھی اپنی کرسیوں سے گر کر فرش پر اوندھے منہ بے ہوش پڑے ہوئے ہیں۔ ملازم نے سمجھا کہ ان لوگوں نے شاید آج کوئی تیز قسم کی شراب پی لی ہے۔ اس بنا پر ان کا یہ حال ہوا ہے اس نے ان کے کپڑے درست کیے اور خاموشی کے ساتھ باہر چلا گیا۔ مگر یہ بات دوسری تھی۔ یہ دراصل سر جیمز سمپسن (1811-1870ء)اور ان کے دو اسسٹنٹ تھے۔ انہوں نے انسانی جسم پر کلوروفارم کے اثرات کا تجربہ کرنے سے پہلے پہلی بار اس کو سانس کے ذریعے اپنے اندر داخل کر لیا تھا۔
سمپسن ایک غریب نانبائی کے سات لڑکوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ چار سال کی عمر میں اس نے اپنے گائوں کے اسکول میں تعلیم شروع کی ۔ اس نے تعلیم میں اتنی دلچسپی دکھائی کہ اس کا باپ اور چھ بھائی اس پر راضی ہو گئے کہ خود انتہائی ضروری مصارف پر قناعت کر کے اس کو اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر بھیجیں۔ اس طرح وہ اڈنبرا یونیورسٹی پہنچا اور ڈاکٹری میں اس وقت کی سب سے اونچی ڈگری (ایم ڈی) حاصل کی۔
ڈاکٹر سمپسن کو اپنے مطالعہ کے دوران معلوم ہوا کہ کلوروفام میں بے ہوش کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس نے اس پر تحقیق شروع کر دی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ آپریشن کے وقت اگر مریض کو وقتی طور پر کلوروفام کے ذریعے بے ہوش کر دیا جائے تو اس کو چیر پھاڑ کی بھیانک تکلیف سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ اس نے اپنی تحقیق جاری رکھی۔ یہاں تک کہ خود اپنے آپ پر تجربہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ کلوروفام کو بے ضرر بے ہوشی کے لیے کامیاب طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح غریب نانبائی کا یہ لڑکا انسان کو وہ چیز دے سکا جس کو ڈاکٹر برائون نے اس الفاظ میں بیان کیا ہے… دکھی انسانوںکے لیے خدا کا ایک بہترین تحفہ:
…..One of God’s best gifts to his suffering children.
جدید دنیا میں مغرب کی امامت کا راز اس کے اسی قسم کے باحوصلہ افراد ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو کھویا تاکہ وہ انسانیت کو دیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا تاکہ وہ دوسروں کو خطرہ سے بچا سکیں۔