غریب لڑکے کی داستان عزم و حوصلہ

امریکی ایوان بالا کا ایک سابق رکن ایمر تھامس شدید احساس کمتری میں مبتلا تھا۔ پندرہ برس کی عمر میں اسے کئی پریشانیوں ،وسوسوں اورخدشات نے گھیر لیا۔ اس کا قد6فٹ دوانچ تھا جواس کی عمر کے لحاظ سے بہت لمبا تھا اور ساتھ ساتھ وہ بہت دبلاپتلا بھی تھا ۔جبکہ وزن صرف 118پائونڈ تھا۔ وہ اپنے لمبے قد کے باوجود بڑا کمزور تھا۔ کھیلوں میں وہ دوسرے لڑکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، اس لیے ان کے مذاق کا نشانہ بنتا اور لڑکے اسے طرح طرح کے ناموں سے پکارا کرتے ۔ احساس کمتری کی وجہ سے وہ اتنا پریشان اور حساس ہوگیا کہ میل ملاقات سے گھبراتا۔ان کے مویشیوں کا باڑہ ،یعنی فارم ہائوس موٹروے سے دور تھا اور گھنے درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے خاندان کے سوا کسی دوسرے فرد سے شاذ و نادر ہی مل سکتا تھا ۔اگر وہ ان پریشانیوں سے چھٹکارا نہ پا سکتا تویقینا زندگی میں ناکامیوں ہی سے دو چار رہتا ۔ اس کی والدہ اس کے احساسات سے بخوبی واقف تھی کیونکہ وہ ایک سکول ٹیچر تھی۔ وہ اسے اکثر کہا کرتی تھی ۔’’بیٹے ہمت نہ ہارو ،تمھیں ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہیے ۔ تمھیں دماغ کی مدد سے روزی کمانے کی کوشش کرنا ہوگی کیونکہ تمہارا جسم تمہارے آگے بڑھنے میں ہمیشہ رکاوٹ بنا رہے گا۔‘‘
اس کے والدین اس قابل نہیں تھے کہ اس کے کالج کے اخراجات اٹھا سکتے ،چنانچہ اس نے اپنا راستہ خود ہی بنایا۔ اس نے موسم سرما میں کچھ جنگلی جانور پکڑے اور ان کی کھالیں اتار کرچار ڈالر میں بیچ دیں۔ پھر انھی چارڈالروںسے دو چھوٹی چھوٹی بکریاں خرید لیں اور اگلے سال انھیں چالیس ڈالر میں فروخت کر دیا۔ اس رقم سے اس نے ایک کالج میں داخلہ لے لیا اور جملہ ابتدائی اخراجات اسی میں سے پورے کیے ۔ سکول سے واپسی پر وہ تھوڑی دیر پڑھے ہوئے اسباق دہراتا اور کچھ پھل خرید کر فروخت کر دیتا۔ اس سے اس کے تعلیمی اخراجات اور جیب خرچ نکل آتے ۔
وہ اپنی والدہ کی بنائی ہوئی برائون شرٹ پہنا کرتا ، پھر والدکے کپڑے پہننا شروع کر دیے جو اسے کبھی پورے نہیں آتے تھے اور ہمیشہ پریشانی کا باعث بنے رہتے ۔اس کے جوتے بھی چلتے ہوئے پائوں سے پھسل پھسل جاتے تھے۔ وہ دوسرے ساتھیوں سے ملنے جلنے سے حد درجہ کتراتا تھا ۔ اس سے اسے یہ فائدہ پہنچا کہ اسے کمرے میں تنہا رہ کر مطالعے کے لیے زیادہ وقت مل جاتا ۔
اس کی زندگی کے ان دنوں سب سے بڑی خواہشں یہ تھی کہ بڑی بڑی دکانوں سے مناسب کپڑے اور جوتے خرید لے تاکہ اسے روز روز ندامت نہ اٹھانی پڑے ۔ شوکیسوں میں سجے بوٹ اور دیدہ زیب کپڑوں کے تھان دیکھ کر اس کی طبیعت بہت للچاتی اور وہ دل ہی دل میں کہا کرتا ’’اے اللہ! تونے مجھے اتنے غریب گھرانے میں کیو ں پیدا کیا: تاہم کچھ عرصے کے بعد چار ایسے واقعات رونما ہوئے جنھوں نے اسے احساس کمتری پر قابو پانے میں بڑی مدد دی ۔ ایک واقعے سے اس کا خاص طور پر حوصلہ بڑھا اور خود اعتمادی پیدا ہوئی جس سے اس کی باقی ساری زندگی کلی طور پر بدل کررہ گئی ۔ان واقعات کی ترتیب یہ تھی ۔
٭ نارمل سکول میں صرف آٹھ ہفتے کی تربیت کے بعد اس کا امتحان ہوا جس کے بعد اسے مقامی دیہی سکول میں پڑھانے کا ایک سر ٹیفکیٹ ملا۔ اگرچہ یہ سرٹیفکیٹ صرف چھ ماہ تک کارآمد تھا لیکن یہ اس کی ذات پر کسی اور کے اعتماد کا ایک واضح ثبوت تھا کہ بالآخر اسے بھی کسی قابل سمجھا گیا۔ والدہ تو پہلے بھی اس کی ذات پر اعتماد کرتی تھی اور یہ سرٹیفکیٹ اس کے علاوہ کسی کے اعتماد کا مظہر تھا۔
٭ ایک مقامی سکول میں اسے چالیس ڈالر ماہانہ تنخواہ پر ٹیچر رکھ لیا گیا اور یہ اس کی ذات پر اعتماد کا ایک اور اہم ثبوت تھا۔
٭ پہلی تنخواہ پر اس نے سٹور سے چند لباس خریدے ۔ یہ ایسے لباس تھے جنھیں پہن کر اسے اتنی خوشی ہوئی کہ اس وقت کسی اور ذریعے سے اسے سینکڑوں ڈالر بھی مل جاتے تو اس سے زیادہ خوشی نہ ہوتی۔
٭ اصل واقعہ جس نے اس کی زندگی کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور جس سے اسے اپنے اندر احساس ندامت اور احساس کمتری پر قابوپانے میں مدد ملی ، یہ تھا کہ اس کی والدہ نے اسے ایک میلے (فن فیئر)میں ہونے والے تقریری مقابلے میں شرکت کرنے کی ترغیب دی آخر استانی تھی نا!
پہلے وہ گھبرایا اور ڈرنے لگا کہ’’مجھ میں ایک عام شخص کا سامنا کرنے کی بھی ہمت نہیں ،کجا کہ میں اتنے بڑے عوامی مجمع سے خطاب کروں‘‘ لیکن اس کی والدہ کا اس پر فولادی یقین تھا۔ وہ اس کے سہانے مستقبل کے بڑے خوبصورت خواب دیکھا کرتی تھی ۔ اس کی ساری زندگی کی امیدوں کا مرکز اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نے اپنی تقریر کے لیے جس موضوع کا انتخاب کیا، اس کے بارے میں اس کی معلومات غالباً نہ ہونے کے برابر تھیں ۔،موضوع یہ تھا’’امریکہ کے آزاد فنون لطیفہ ‘‘وہ کہتا ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تقریر کی تیاری شروع کرتے وقت مجھے یہ تک پتہ نہ تھاکہ ’’آزاد فنون لطیفہ‘‘کیا ہوتے ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا ،میرے سامعین بھی تواس سے نابلد تھے۔ اس نے ماں کی مدد سے اپنی نہایت فصیح وبلیغ تقریر ذہن نشین کرلی اور درختوں اور مویشیوں کے سامنے سینکڑوں بار اس کی مشق کی ۔
یہ والدہ کی دعائیں اور نیک تمنائیں اور اس کے اندر اسے خوش کرنے کا جذبہ تھا جو رنگ لایا۔اس نے سامعین کے سامنے نہایت جذباتی تقریر کرڈالی جس پر اسے فرسٹ پرائز ملا۔مجمع سے داد و تحسین کی آواز بلند ہوئی اور وہ لڑکے جو اس کا تمسخر اڑاتے اور اس کے طرح طرح کے نام رکھتے تھے ۔ اس کے پاس آ کر اسے تھپکیاں دے رہے تھے۔ والدہ نے تو خوشی کے جذبات سے اسے گلے لگایا اور خوشی کے آنسو بہانے لگی ۔ پہلے مایوسی کی وجہ سے وہ اس سے چھپ چھپ کر غم کے آنسو بہاتی رہی ہوگی ۔ آج اس کے لیے امیدوں کا روشن سورج طلوع ہوا تھا۔
انعامی تقریری مقابلے کی جیت نے اس کی زندگی کا رخ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مقامی اخباروں نے صفحہ اول پر اس کی کامیابی کی سرخیاں لگائیں اور اس سے متعلق اچھے ریمارکس بھی دیے ۔ ایک اخبار نے اس کے شاندار مستقبل کی پیشگوئی بھی کردی ۔ اس طرح وہ مقامی سطح پر بہت نمایاں ہوگیا۔ لیکن اس کے نزدیک اہم ترین بات اس کے اندر خود اعتمادی میں سینکڑوں گنا اضافہ تھا ۔ اب اسے احساس ہوا کہ اگروہ یہ مقابلہ نہ جیتتا تو کبھی امریکی سینیٹ کا ممبر نہیں بن سکتا تھا کیونکہ اس جیت سے اس کے نظریات کو وسعت ملی اس کے خیالات میں بہتری پیدا ہوئی اور اسے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا احساس ہوا۔
اس مقابلے کی اہم ترین بات یہ تھی کہ پہلے انعام یافتہ فرد کو نارمل کالج میں ایک سال کی تعلیم کے لیے وظیفہ ملتا تھا ۔ وظیفے کی وجہ سے اس میں اعلیٰ تعلیم کی خواہش پیدا ہوئی ۔ اگلے کچھ برسوں میں اس نے اپنے وقت کو مطالعے اور تعلیم وتدریس میں تقسیم کردیا ۔ یونیورسٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نے کئی چھوٹے موٹے کام کیے ۔ مالی کا کام کیا ،کھیتوں میں ہل چلایا اور فصل کاٹی اور سڑکوں پر روڑا بجری بھی کوٹے ۔
1896ء میں انیس سال کی عمر میں وہ اٹھائیس تقریریں کرچکا تھا جن میں اس نے صدر بننے کے لیے ولیم جیننگز کو ووٹ دینے کے لیے لوگوں پر زور دیا تھا ۔ اس سے اسے خود سیاست میں حصہ لینے کی تحریک ملی ، چنانچہ اس نے یونیورسٹی میں قانون اور عوامی خطابت کے مضامین کا انتخاب کیا۔ یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد اس نے نئی ریاست اوکلاہاما میں رہائش اختیار کرلی اور وکالت کا آغاز کردیا۔ وہ تیرہ سال تک اوکلاہاما ریاست کی سینٹ کارکن رہا اور چار برس تک کانگریس کے ایوان زیریں کا رکن رہا جبکہ پچاس سال کی عمر میں اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی اور اسے اس ریاست سے امریکی سینٹ کا رکن چن لیا گیا۔
اس کا کہنا تھا کہ اس نے یہ واقعات اس لیے نہیں بتائے کہ اپنی شاندار کامیابیوں کی تشہیر کرے ، ایسی تشہیر سے کسی کو بھی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ میری ماں نے میرے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور میں نے ان کے کہنے پر ایک کے بعد ایک قدم اٹھایا، اس نے یہ باتیں اس خیال سے بتائی ہیں کہ پریشانیوں اور احساس کمتری میں مبتلا ایک غریب لڑکے کی داستان عزم وحوصلہ پڑھ کر ایسے حالات سے دوچاردوسرے نوجوانوں کے بھی حوصلے بلند ہوسکیں ۔ وہ کہتا ہے کہ میں ایسا لڑکا تھا جو اپنے والد کے پرانے کپڑے پہنا کرتاتھا اور اس کے ایسے جوتے پہنتا تھا جو چلتے چلتے میر ے پائوں سے نکل جاتے تھے ۔ جوانی میں بھدے کپڑے پہنتے ہوئے ندامت محسوس کرتا تھا اور بعد میں امریکی سینٹ کا خوش پوش ترین رکن قرار پاگیا تھا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button