ویڈیو نے لڑکی کی زندگی برباد کر دی
ایک دوشیزہ جو یونیورسٹی کے مرحلے میں تھی ۔اس کی تین بہنیں ہیں ایک ہائی کلاس میں جب کہ دو مڈل میں پڑھتی ہیں۔ باپ سبزی فروش ہے اور محنت کرتا ہے ، تاکہ ان کے لیے زندگی کا لقمہ کما سکے ۔ یہ لڑکی یونیورسٹی کی پڑھائی میں بڑی قابل ہے ۔ اچھے اخلاق اور عمدہ ادب میں معروف ہے ۔تمام کلاس فلیوز اس سے محنت کرتی ہیں اور اس کے قریب ہونے کا شوق رکھتی ہیں کہ وہ ممتاز حیثیت سے فائق ہے۔
اس دوشیزہ نے کہا:
ایک دن میں یونیورسٹی کے گیٹ سے نکلی تو اچانک ایک نوجوان میرے سامنے تھا۔ وہ میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے مجھے پہنچانتا ہو۔ میں نے اس پر کچھ توجہ نہ دی ، لیکن وہ پیچھے ہو لیا۔ پست آواز اور بچگانہ کلمات سے میرے ساتھ باتیں کرنے لگا ،مثلاً : اے خوب رو۔۔میں آپ سے شادی کا خواہاں ہوںمیں بڑی دیر سے آپ کا پیچھا کرتا ہوں ، آپ کے اخلاق اور ادب کو پہچانتا ہوں۔ میں تیز چلی تو میر ے قدم لڑکھڑانے لگے ، میری پیشانی پسینے سے شرابور ہوگئی ، اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ پیش نہ آیا تھا اور میں مدہوش اور انہتائی پریشانی کے عالم میں گھر پہنچی ۔اس موضوع پرسوچتی رہی اور خوف ،گھبراہٹ اور بے چینی سے اس رات سونہ سکی۔
اگلے دن میرے یونیورسٹی سے نکلتے وقت میں نے اسے گیٹ کے سامنے پایا وہ مسکرا رہا تھا اس کا مجھ سے چھیڑخوانی کرنا اور پیچھے چلنا کئی بار ہوا اور اس کام کی انتہا اس چھوٹے خط پر ہوئی جواس نے گھر کے دروازے کے پاس پھینک دیا ، میں نے اسے اٹھانے میں تردوکیا لیکن اٹھا لیا ،میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے اسے کھولا اور پڑھا تو اچانک اس میں محبت بھرے کلمات ،جنون عشق نیز جو اس نے مجھے تنگ اور پریشان کیا تھا اس کی معذرت کی تھی۔
میں نے کاغذ پھاڑ ا اور پھینک دیا ‘کچھ دیر بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بجی میں نے ریسیور اٹھایا تو اچانک وہی نوجوان ،خوب صورت کلام سے بول رہا تھا ۔ آپ نے خط پڑھ لیا یا نہیں؟ میں نے کہا: اگرتم نہیں سدھرے تو میں اپنے گھر والوں کو بتادوں گی اور تباہی تمہاری ہوگی۔ ایک گھڑی بعد دوبارہ فون کردیا ،پیار جتانے لگا کہ میرا مقصد بڑا نیک ہے وہ قرار پانا اور شادی کرنا چاہتا ہے ،نیز وہ بڑا مال دار ہے عن قریب میر ے لیے ایک محل بنائے گا اور میری تمام آرزوئوں کو پورا کرے گا،وہ اکلوتا ہے اس کے خاندان میں سے کوئی باقی نہیں بچا،،، اور ،،،اور،،، اس پر میرا دل نرم پڑگیا اور اس سے بات چیت کرنے لگی اور بے تکلفی اختیار کرنے لگی۔ اب میں ہر وقت ٹیلی فون کی منتظر رہتی ۔ یونیورسٹی سے نکلتے وقت اسے تلاش کرتی کہ شاید اسے دیکھ پائوں ، لیکن بے سود ایک دن یونیورسٹی سے نکلی تو اچانک وہ میرے سامنے تھا ۔ میں خوشی سے پھٹ پڑی پھر میں اس کے ساتھ گاڑی میں گھومنے کے لیے نکلنا شروع ہوگئی۔ میں بیٹھی اس کی طرف دیکھتی رہتی اور وہ میر ی طرف دیکھتا رہتا ۔پھر ہمیں جہنم کے ڈھانپنے والے عذاب نے ڈھانپ لیا ،مجھے اس کے سوا کچھ پتا نہیں کہ میں محض اس نوجوان کا پکڑا ہوا شکار بن چکی تھی ۔ اور سب سے عزت والی جس چیز کی مالک تھی اسے کھو بیٹھی تھی ۔ میں جنون زدہ کی طرح اٹھی کہ تو نے میرے ساتھ کیا کیا؟
تم ڈرو نہیں ،تم میری بیوی ہو۔میں تمھاری بیوی کیسے ہوں ؟تم نے میرے ساتھ نکاح نہیں کیا۔ میں عن قریب عقدکرلوں گا۔میں لڑکھڑاتی ہوئی اپنے گھر گئی میری پنڈلیاں مجھے اٹھا نہیں رہی تھیں ۔ آگ میر ے وجود میں شعلہ زن تھی ،الٰہی ! میں نے کیا کردیا۔ کیا میں پاگل ہوگئی ہوں؟ مجھ پر کیا مصیبت پڑی ؟دنیا میری آنکھوں کے آگے اندھیر ہوگئی ۔میں روتی اور کڑوے اشک پیتی ۔ میں نے پڑھائی چھوڑدی اور انتہا درجے کی بدحال ہوگئی۔گھر والوں میں سے کوئی بھی اصل معاملے کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوسکا۔لیکن میں ایک وعدے سے لٹکی تھی جواس نے بہکایا تھا اور وہ اس کا میرے ساتھ شادی کا وعدہ تھا، کئی دن بیت گئے اس کے بعد کیا ہوگا؟
اچانک ایسا حادثہ ہواجس نے میری زندگی دائو پرلگا دی فون کی گھنٹی بجی تو دور سے اس کی آواز آ رہی تھی اور مجھے کہہ رہا تھا میں ایک اہم کام کے لیے تجھ سے ملنا چاہتا ہوں میں خوش ہوگئی اور نعرہ لگایا اورخیال کیاکہ اہم چیز شادی کے امور کو ہی انجام دینا ہوگا۔ میں اسے ملی تو وہ بدکلامی اور ترش روئی سے پیش آیا اس کے چہرے سے درشتی کے نشانات ہویدا تھے وہ جلدی سے کہہ رہا تھا ہر چیز سے پہلے یہ بات ہے کہ تم کبھی شادی کے متعلق مت سوچنا ہم بغیر کسی قید کے اکٹھے رہیں گے۔
میں نے لاشعوری طور پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے چہرے پر تھپڑ رسید کیا ۔یہاں تک کہ قریب تھا کہ اس کی آنکھوں سے شراڑجانے لگے، میں نے کہا :میں سمجھتی تھی کہ تم اپنی غلطی کی اصلاح کروگے، لیکن میں نے تجھے ایسا آدمی پایا جو بداخلاق ہے اور جلدی سے گاڑی سے نیچے اترآئی اور رونے لگی وہ بولا تھوڑی دیر مہربانی فرماکر رکیں تو میں نے اس کے ہاتھ میں ایک ویڈیو کیسٹ دیکھی ،وہ اسے بے باکانہ اپنی انگلیوں کے کناروں سے اٹھائے ہوئے تھا اور متکبرانہ الفاظ سے کہہ رہا تھا :میں عن قریب اس کیسٹ کے ذریعے تجھے توڑ پھوڑ کررکھ دوں گا۔میں نے کہا:اس کیسٹ میں کیا ہے ؟
وہ بولا: میرے ساتھ آئوتاکہ اسے دیکھ سکو،یہ تیرے لیے بڑا حادثہ ہوگا،اس کے ساتھ چلی گئی تاکہ کیسٹ دیکھ سکوں میں نے وہ مکمل فلم دیکھی توجو کچھ حرام کام ہمارے درمیان ہواتھا ، وہ اس میں ریکارڈ تھا۔ میں نے کہا: اے بزدل !تو نے یہ کیاکیا؟اے گھٹیا انسان!اس نے کہا : ہم پر خفیہ کیمرے نصب تھے، جو ہرحرکت اور پست آواز کوریکارڈ کر رہے تھے ، تیری تباہی کے لیے یہ کیسٹ مجھے اسلحے کاکام دے گی، الایہ کہ تو میرے احکامات کے تابع اور میر ے اشارات کی فرمانبردار ہو ۔میں رونے اور چلانے لگی، کیونکہ صرف میرا معاملہ نہ تھا ،بلکہ میر ے سارے کنبے کا معاملہ تھا ۔ میں اس کے ہاتھ میں قیدی تھی ۔ وہ مجھے ایک آدمی سے دوسرے کی طرف منتقل کرتا رہتا اور رقم بٹورتا ۔ میں دلدل میں گر چکی تھی اور زندگی کو تباہی کی طرف لے جاچکی تھی ، جبکہ میرا کنبہ میرے کرتوتوں سے بے خبرتھا۔انھیں مجھ پر مکمل بھروسا تھا۔
کیسٹ پھیل گئی اور میرے چچا کے بیٹے کے ہاتھ لگ گئی اور معاملہ کھل گیا اور راز افشاہوگیا، میرے باپ اور سارے کنبے کو پتا چل گیا ، رسوائی سارے شہر میں منتشر ہوگئی اور ہمارا گھر عار سے لتھڑگیا ، میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑی ہوئی اور نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے والدین اور بہنیں دوسرے شہر نقل مکانی کرگئے ہیں رسوائی بھی ان کے ساتھ پیچھے چلی گئی ،مجالس میں یہی موضوع گفتگو بن گیا اور وہ کیسٹ ایک نوجوان سے دوسرے نوجوان کی طرف منتقل ہونے لگی ۔
میں رذالت میں ڈوبی بدکار عورتوں کے درمیان رہنے لگی ،یہ گھٹیا شخص ہی سب سے پہلے مجھے یہ رخ دینے والاتھا ،ہاتھ میں گڑیا کی طرح وہ مجھے حرکت دیتا اور میں خود حرکت نہ کرسکتی تھی ۔ یہ نوجوان متعدد گھروں کی تباہی اور اٹھتی عمر کی دوشیزائوں کے مستقبل کی ویرانی کا باعث بنا تھا ۔
میں نے انتقام کا عزم کرلیا، ایک دن وہ میرے پاس آیا تو وہ نشے سے دھت تھا، میں نے موقع غنیمت جانا اور اسے چھراگھونپ دیا، میں نے انسانی صورت میں ابلیس کو قتل کردیا اور لوگوں کو اس کی برائیوں اور فسادات سے بچا لیا ۔ میرا انجام یہ ہوا کہ میں اب پابند سلاسل اور سلاخوں کے پیچھے ہوں، ذلت اور محرومی کے گھونٹ پی رہی ہوں ، اپنے فعل بد پر ، نیز اپنی اس زندگی پرجس میں کوتاہی سے کام لیا ،نادم ہوں۔
میں جب بھی ویڈیو کیسٹ کو یادکرتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے جیسے کیمرے ہر جگہ میر ا پیچھا کررہے ہیں ۔میں نے اپنا یہ قصہ سپردقلم کردیا ہے ،تاکہ ہر دوشیزہ کے لیے عبرت اور نصیحت بنے کہ جو چکنے اور بھڑکیلے الفاظ کے پیچھے ہانکے جارہی ہے ۔