لوگوں کی بات توجہ سے سنیں اور دلکش جواب دیں
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُم المومنین عائشہ کے پاس تشریف فرما تھے۔
عائشہ نے آپ کو گیارہ عورتوں کا قصہ سنایا۔ آپ شدید مصروفیت کے باوجود اُن کی باتیں نہایت توجہ اور دلچسپی سے سنتے رہے۔
عائشہ نے بیان کیا: ’’جاہلیت کے دور کی بات ہے۔ گیارہ خواتین اکٹھی بیٹھیں اور یہ طے کیا کہ اپنے شوہروں کا کھلا تذکرہ کریں گی اور اُن کی عادات و اطوار سے متعلق کوئی بات نہیں چھپائیں گی۔
پہلی خاتون نے کہا: ’’میرا شوہر لاغر اونٹ کا گوشت ہے جو دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر پڑا ہو۔ نہ پہاڑ پر چڑھنا آسان ہے اور نہ ہی گوشت ایسا اچھا کہ اُس کے لیے اتنی تگ و دو کی جائے۔‘‘ (بداخلاق ہونے کے ساتھ متکبر بھی ہے)
دوسری بولی: ’’ میں اپنے شوہر کا حال بیان نہیں کر سکتی۔ مجھے ڈر ہے کہ اُسے چھوڑ نہیں سکوں گی۔ اگر اُس کا ذکر کروں گی تو سارا کچا چٹھا کہہ ڈالوں گی۔‘‘ (شوہر میں عیب بہت ہیں۔ کچھ کہوں گی، اُسے پتا چلے گا تو طلاق دے ڈالے گا، اس لیے خاموش رہتی ہوں)
تیسری نے کہا: میرا شوہر لمبا تڑنگا ہے۔ عقل اُس کی ٹخنوں میں ہے۔ بولتی ہوں تو طلاق دی جاتی ہے۔ خاموش رہتی ہوں تو بھی لٹکی
رہتی ہوں کہ نہ وہ چھوڑتا ہے اور نہ شوہروں کا سا سلوک کرتا ہے۔ وہ مجھے تلوار کی دھار پر چلاتا ہے۔‘‘
چوتھی کہنے لگی: ’’میرا شوہر تہامہ کی رات کی مانند شفاف اور معتدل ہے۔ نہ ٹھنڈا نہ گرم، نہ کوئی خوف اور نہ اکتاہٹ۔‘‘
پانچویں نے کہا: ’’میرا شوہر گھر آئے تو تیندوے کی طرح لمبی تان کر سو رہتا ہے۔ (عیب جوئی نہیں کرتا، غلطیوں سے چشم پوشی کرتا ہے۔) گھر سے باہر ہو تو شیر کی طرح بہادر ۔ کھلے دل کا ایسا کہ اخراجات کے متعلق بھی نہیں پوچھتا۔‘‘
چھٹی خاتون بولی : ’’میرا شوہر کھانے بیٹھ جائے تو سب کچھ ہڑپ کر جاتا ہے۔ پینے لگے تو ایک بوند نہیں چھوڑتا۔ بستر پر آئے تو سارا لحاف خود لپیٹ کر منہ پرے کیے سو جاتا ہے۔ ہاتھ بڑھا کرمیرا حال دریافت نہیں کرتا۔‘‘
ساتویں گویا ہوئی: ’’میرا شوہر بدھو اور احمق ہے۔ دنیا کی ہر بیماری (عیب) اُس میں موجود ہے ۔ تم اُس سے بات کرو گی تو تمہیں گالی دے گا۔ کوئی مذاق(بھولے سے) کر بیٹھوتو اینٹ اٹھا کر سر پر دے مارے گا۔ ورنہ کوئی ہڈی پسلی توڑ دے گا یا سر بھی پھوڑے گا اور ہڈی بھی توڑے گا۔‘‘
آٹھویں نے کہا: ’’میرے شوہر کو چھوؤ تو خرگوش کی طرح نرم وملائم۔ سونگھو تو زرنب (خوشبودار بوٹی) کی طرح خوشبودار۔ میں اُس پر غالب ہوں (اُس کی نرم مزاجی کی وجہ سے) اور وہ لوگوں پر غالب (اپنی بہادری اور قوت کے بل پر)۔
نویں خاتون کہنے لگی: میرے شوہر کی تلوار کا پرتلا لمبا ہے، (وہ دراز قد ہے) اُ س کے صحن میں راکھ کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ (اکثرتعداد میں مہمان آتے ہیں، اُن کا کھانا پکنے میں بہت لکڑیاں جلتی ہیں، یوں بہت راکھ ہوتی ہے)۔ اُس کا گھر دوستوں کی مجلس سے قریب ہے (وہ گھر والوں کا خیال رکھتا ہے، دوستوں میں جائے وقتاً فوقتاً گھر آتا رہتا ہے) جس رات مہمان ہو سیر نہیں ہوتا، (شرمیلا ہے، کہیں مہمان بن کر جائے تو دوسرے کے سامنے کم کھاتا ہے) جس رات خوف ہو، سوتا نہیں، (رات کو دشمن کے حملے کا خدشہ ہو تو جاگ کر پہرہ دیتا ہے۔)‘‘
دسویں نے کہا: ’’میرے شوہر کا نام مالک ہے۔ تم کیا جانو مالک کون ہے۔ (اس کی بے شمار خوبیوں کا احاطہ ناممکن ہے) مالک سب سے اچھا ہے۔ اُس کے پاس بہت اونٹ ہیں جو ہمیشہ اپنے باڑوں میں بندھے رہتے ہیں۔ باہر چرنے کا انہیں کم ہی موقع ملتا ہے۔ (بکثرت مہمانوں کی آمد کی وجہ سے ذبح ہوتے رہتے ہیں) اونٹ جب آگ جلانے والے کی آواز سنتے ہیں تو انہیں یقین ہوتا ہے کہ اب اُن کی خیر نہیں۔‘‘
گیارھویں عورت اُم زرع بولی: ’’میرا شوہر ابوزرع ہے۔ تم کیا جانو ابوذرع کون ہے۔ اُس نے میرے کان زیورات سے لاد دیے۔ میرے بازو چربی سے بھر دیے، (اُس کے پاس رہتے ہوئے میں خوب کھا پی کر موٹی ہو گئی) اُس نے میری اتنی تعریف کی کہ مجھے اپنا آپ بھانے لگا۔ اُس نے مجھے جس گھرانے میں پایا وہ چند چھوٹی چھوٹی بکریوں کا مالک تنگدست کنبہ تھا۔ وہ مجھے (وہاں سے اٹھا کر) ایسے گھر میں لے آیا جہاں بے شمار جانور ہیں اور (گھوڑوں کے) ہنہنانے اور (اونٹوں کے ) بلبلانے کی آوازیں آتی ہیں، (کھاتا پیتا گھرانا ہے۔ یہ لوگ گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کرتے ہیں)۔
یہاں میں بات کرتی ہوں تو لعن طعن نہیں کی جاتی۔ سوتی ہوں تو دن چڑھے اٹھتی ہوں۔ پینے لگتی ہوں تو اتنا پیتی ہوں کہ پھر پینے کی خواہش نہیں رہتی۔
اور ابو ذرع کی والدہ! تم کیا جانو کہ ابوذرع کی والدہ کون ہے اور کیا ہے۔ وہ خوب موٹی تازی اور خوبصورت ہے اس کا گھر کھلا ہے۔
اور ابوزرع کا بیٹا ! تم کیا جانور ابوزرع کا بیٹا کون ہے اور کیا ہے۔
تلوار جتنی چوڑی جگہ میں سو جاتا ہے، (چھریرے بدن کا ہے)۔
بکری کے بچے کی دستی سے سیر ہو جاتا ہے، (کم خوراک ہے)۔
اور بنتِ ابوزرع! تم کیا جانو کہ ابوزرع کی بیٹی کون اور کیسی ہے۔
ماں باپ کی فرماں بردار، اُس کا موٹا بدن کپڑوں کو بھر دیتا ہے۔ وہ سوتن کا جلاپا ہے۔ (سوتن اُس کی خوبصورتی اور آسودہ حالی سے جلتی ہے)
اور ابوزرع کی خادمہ! تم کیا جانو ابوزرع کی خادمہ کیسی ہے۔
وہ ہماری بات باہر جا کر نہیں بتاتی ، نہ ہمارے غلے سے بے پروائی کرتی ہے اور نہ گھر کو کوڑے کرکٹ سے بھرتی ہے۔
ایک دن ابوزرع (گھر سے) نکلا۔ مشکوں سے مکھن نکل رہا تھا، (بہار کا خوش گوار موسم تھا) اُس کی ملاقات ایک عورت سے ہوئی جس کے تیندوے جیسے چست و چالاک اور مضبوط دو بچے تھے۔ وہ دونوں اُس کے پہلوؤں میں پڑے کھیل رہے تھے۔ ابوزرع نے مجھے طلاق دے دی اور اُس عورت سے شادی کر لی۔ ابوزرع کے بعد میں نے ایک امیر آدمی سے شادی کی جو ہاتھ میں تلوار تھامے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوتا تھا۔ اُس نے میرے پاس نعمتوں کے انبار لگا دیے۔ اُس نے مجھے ہر خوشبو کے جوڑے لا کر دیے (کہ خود بھی استعمال کروں اور تحفہ میں بھی دوں) اُس نے کہا: ام زرع! کھاؤ پیو اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاؤ ۔‘‘ لیکن میں اُس کی دی ہوئی ہر شے جمع کروں تو وہ ابوزرع کے سب سے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ ہو۔‘‘
یہاں یہ قصہ ختم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دلچسپی اور غور سے سنا ، پھر عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ میں تمہارے لیے ویسا ہوں جیسا ابوزرع ام زرع کے لیے تھا۔‘‘ (بخاری)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کتنے تحمل سے پورا واقعہ سنا اور اُس پر کتنا بہترین تبصرہ فرمایا ۔ یہ حقیقت ہے کہ توجہ سے لوگوں کی بات سننا بھی ایک فن ہے۔