ڈسپلن کیا ہے؟

سکول میں آپ نے اپنے اساتذہ کی زبانی ’’ ڈسپلن ‘‘ کالفظ اکثر سنا ہو گا اور اس کے کچھ کچھ معنی بھی جانتے ہوں گے ۔ آئیے اس لفظ کے سلسلے میں چند باتیں ہم بھی سمجھ لیں۔ ڈسپلن کا لفظ انگریزی کے لفظ "Diciple”سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی شاگرد، پیروکار یا چیلہ کے ہیں۔ جیسے اچھا شاگرد اپنے استاد کی ہر بات مانتا ہے ۔ اچھا پیروکار، اپنے لیڈر یا رہنما کی باتیں توجہ سے سنتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ یا نیک دل مرید اپنے پیر کی باتیں خلوصِ دل سے سنتا ہے (یہاں ہماری مراد جعلساز پیر نہیں بلکہ خوف الٰہی سے سرشار اور کتاب و سنت کے پابند بزرگ ہیں) تو سکول کے زمانے میں جو طالب علم جتنا زیادہ’’Diciplined‘‘ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ فیض پاتا ہے۔ تعلیم سے فارغ ہونے پر عملی زندگی میں آ کر بھی وہ ’’ڈسپلن‘‘ کے طور طریقوں کی پابندی کرتا ہے۔ اس لفظ کا جتنا اثر عملی کاموں پر پڑتا ہے، اتنا ہی سوچوں پر بھی پڑتا ہے کہ کیا ہم مقررہ ضابطوں کے مطابق سوچتے ہیں یا نہیں؟ ضابطہ بند سوچیں انسان کو منتشر خیال سے بچاتی ہیں، یعنی بے ہنگم اور غیر ضروری سوچوں سے بچاتی ہیں۔
ڈیل کارنیگی ایک خاتون کی ڈسپلن کے تابع سوچوں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ایک بار ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ وہ ہرگز پریشان نہیں ہوتی۔ میںبڑا حیران ہوا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ کو کبھی پریشانی نے زچ نہیں کیا؟ اس نے کہا:
’’آپ زچ ہونے کی بات کرتے ہیں ‘ چند سال پہلے تو میں اتنی زچ ہوئی تھی کہ میری زندگی تباہی کے دہانے پر جا پہنچی تھی‘ پھر میں نے پریشانی کو قابو کرنے کا راز پا لیا ۔ میں نے گیارہ سال بے ضابطہ سوچوں کے خود ساختہ جہنم میں گزارے تھے۔ میںبہت تنگ اور تیز مزاج ہوا کرتی تھی۔ مجھے ہر وقت ذہنی دبائو کا احساس ہوتا تھا۔ دکانوں سے سودا خریدتے وقت عجیب عجیب پریشانیاں مجھے گھیرے رکھتی تھیں۔ کبھی خیال آتا کہ میں گھر میںکہیں استری کا سوئچ کھلا تو نہیںچھوڑ آئی ۔ کہیں میرے گھر کو آگ تو نہیں لگ گئی۔ ملازمہ کہیں بچے کو لے کر فرار تو نہیں ہو گئی۔ بچے گھر سے نکل کر کار کے نیچے تو نہیں آ گئے ۔ میں خریداری کو ادھوری چھوڑ کر بس پکڑتی اور گھر پہنچتی کہ آیا سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں ؟ مجھے ٹھنڈے پسینے آئے ہوتے اور میری حالت قابل رحم ہوتی ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میری شادی کا انجام المناک ہوا۔ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی۔
میرے دوسرے شوہر پیشۂ وکالت سے وابستہ ہیں، وہ دھیمے مزاج کے اور تجزیہ کرنے والی شخصیت ہیں۔ انہوں نے بڑے ڈسپلن کی زندگی گزاری ہے، اس لیے وہ میرے خیالات کو بھی سنوارتے ہیں اور مجھے صبر اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔
ایک بار سفر کے دوران ہم شدید بارش میں پھنس گئے۔ سڑک بہت خراب تھی۔ مجھے دھڑکا سا لگ گیا کہ کہیںکار پھسل کر گہری کھائی میں نہ جا پڑے۔ میرے شوہر مسلسل یہ کہہ کر میرا حوصلہ بڑھاتے رہے کہ میں بہت آہستگی سے کار چلا رہا ہوں ‘ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہا تو ہمیںکچھ بھی نہیں ہو گا۔ اللہ نہ کرے کار کھائی میں بھی گر پڑی تو ہمیں کوئی نقصان نہیںہو گا۔ ان کی خوش امیدی اور اعتماد بھری باتوں نے مجھے بے حد سکون بخشا۔
چند سال قبل بچوںکو مفلوج کر دینے والی بیماری پھیل گئی۔ ان دنوں میں یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی کہ کہیں ہمارے بچے بھی اس وبائی مرض میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ میرے شوہر نے مجھے بار بار یقین دہانی کرائی کہ ہم سب احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارے بچے ہجوم سے دور رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پورے شہر میں بہت ہی کم بچے اس وباء کی لپیٹ میںآئے ہیں‘ اس لیے ہمیں بے جا وہم اور پریشانی سے دوچار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بالکل محفوظ رہیں گے۔ ان جملوں سے جو ڈسپلن والے ذہن کی پیداوار تھے ‘ میری پریشانی کا خاتمہ ہو گیا۔ اس پُرامید سوچ کی بدولت میری زندگی گزشتہ بیس برسوں سے نہایت خوبصورت اورسکون سے گزر رہی ہے۔
زیادہ پریشانیاں حقیقی کی بجائے تصوراتی ہوتی ہے ‘ یعنی سوچوں میں ڈسپلن نہ ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مجھے اکثر یاد آتا ہے کہ میں بچپن میں ڈسپلن سے عموماً لاپروا رہتی تھی۔ بار بار سکول بدلنے اور اساتذہ کے بکثرت تبادلوں کی وجہ سے بھی ہمارے اندر نظم و ضبط جڑیں نہیں پکڑ سکا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے اندر ٹھہرائو پیدا نہ ہو سکا۔ آخر میری اصل کمزوری کو میرے دوسرے شوہر نے پہچانا اور مجھے سکون کی زندگی مل گئی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button