پڑوسی کے شر سے بچنے کا نبوی نسخہ
حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ ! میرا پڑوسی مجھے اتنا ستاتا ہے کہ اس نے میری زندگی تلخ کر دی ہے۔ میں نے خوشامدیں کر لیں‘ سب کچھ کر لیا ‘ مگر ایسا موذی ہے کہ رات دن مجھے ایذا پہنچاتا ہے۔ یارسول اللہ! میں کیا کروں ‘ میں تو عاجز آ گیا ہوں۔ فرمایا: ’’میں تدبیر بتلاتا ہوں‘ وہ یہ کہ سارا سامان گھر سے نکال کر سڑک پر رکھ دے اور سامان کے اوپر بیٹھ جائو اور جو آ کر پوچھے کہ بھائی گھر کے ہوتے ہوئے سڑک پر کیوں بیٹھے ہو؟ کہنا کہ پڑوسی ستاتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ بھائی گھر چھوڑ دو‘ اس واسطے میں نے چھوڑ دیا۔‘‘ چنانچہ لوگ آئے پوچھا کہ بھئی ! گھر کیوں چھوڑ دیا گھر موجود ہے۔ سامان یہاں کیوں ہے ؟ اس نے کہا جی کیا کروں‘ پڑوسی نے ستانے میں انتہا کر دی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ابھی گھر چھوڑ دے ۔ تو جو سنے وہ کہے لعنت اس پڑوسی کے اوپر‘ جو آ رہا ہے ‘ واقعہ سن رہا ہے لعنت لعنت کرتا ہے۔ مدینہ میں صبح سے شام تک ہزاروں لعنتیں اس پر ہوئیں۔ لعنتوں کی تسبیح پڑھی جانے لگی۔
وہ موذی پڑوسی عاجز آیا ‘ اس نے آ کے ہاتھ جوڑے اور کہاخدا کے واسطے گھر چل ‘ میری زندگی تو تباہ و برباد ہو گئی‘ اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ عمر بھر اب کبھی نہیں ستائوں گا بلکہ تیری خدمت کروں گا۔ اب انہوں نے نخرے کرنے شروع کر دیے کہ بتاپھر تو نہیں ستائے گا؟ اس نے کہا حلف اٹھاتا ہوں کبھی نہیں ستائوں گا۔ الغرض اسے گھر میںلایا‘ سارا سامان خود رکھا اور روزانہ ایذا پہنچانے کے بجائے خدمت شروع کر دی۔
تو تدبیر کارگر ہوئی ‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تدبیر عقل سے بتلائی تھی ۔ وحی کے ذریعے سے نہیں۔ تو پیغمبر عقل مند بھی اتنے ہوتے ہیں کہ ان کی عقل کے سامنے دنیا کی عقل گرد ہوتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل اللہ سے تعلق قوی ہونے کا نام ہے‘ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو گا تو دل کا راستہ سیدھا ہو گا۔ عقلمندی یہی ہے کہ اخیر تک کی بات آدمی کو سیدھی نظر آ جائے۔ وہ بغیر تعلق مع اللہ کے نہیںہوتی۔ تعلق اللہ سے نہ رہے ‘ پھر آدمی عقل مند بنے وہ عقل نہیں چالاکی و عیاری ہوتی ہے۔ عیاری اور چیز ہے‘ عقلمندی اور چیز ہے۔ چالاکی میں دھوکہ دہی ہوتی ہے۔ دھوکہ دہی سے اپنی غرض پوری کی جاتی ہے۔ عقل میں کسی کو دھوکہ نہیں دیا جاتا، سیدھی بات تدبیر سے انجام دی جاتی ہے ‘ تو انبیاء علیہ السلام کی نسبت اللہ سے کس کا تعلق زیادہ ہو سکتا ہے؟ تو ان سے زیادہ عقل بھی کسی کی کامل ہو سکتی ہے؟ (تفسیر ابن کثیر: جلد ۱ صفحہ ۶۵۹)