نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں (قسط سوم)

سوال: سیاست میں آنے کا ارادہ ہے،کیا کسی سیاسی جماعت کی طرف سے آفر ہوئی؟
جواب: مجھے سب سے پہلی آفر میاں نواز شریف صاحب کی طرف سے جدہ میں ہوئی تھی، ان کے داماد کیپٹن صفدر صاحب کو پتا چلا کہ میں عمرے پر آیا ہوا ہوں تو ہمارے ایک مشترک دوست ہیں سہیل خان صاحب جواٹک سے الیکشن لڑتے ہیں تو ان کے ذریعے سے انہوں نے ہمیں افطاری پر بلایا۔ میں گیا تو انہوں نے بہت ہی زیادہ اکرام و احترام کا معاملہ کیا اور مجھے کہا کہ اگر آپ الیکشن لڑنا چاہیں تو پورے پاکستان سے جہاں سے بھی آپ چاہیں آپ کو ٹکٹ دیں گے۔ اسی طرح میں ایک دن مولانا فضل الرحمان صاحب سے ملنے کے لیے گیا تو مولانا کے پاس شاہ اویس نورانی بیٹھے ہوئے تھے، انہیں نہیں پتاتھا کہ میں ملاقات کے لیے آر ہا ہوں، انہوں نے مجھے دیکھتے ہی مولانا سے کہا کہ ان کو آپ نے ابھی تک کہیں سے الیکشن نہیں لڑوایا ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ الیکشن لڑنا اتنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن یہ لڑتے نہیں ہیں۔ یہ ایک اختیاری سا فیصلہ ہے ورنہ میرا آبائی تعلق جن علاقوں سے ہے وہاں پر الیکشن لڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
وزیر دفاع پرویز خٹک ہمارے علاقے سے ایم پی اے ہیں اور ہر الیکشن کے اندر ہمارے پورے علاقے کے اندر ایک بات مشہور ہو جاتی ہے کہ اگر پرویز خٹک کے ساتھ کوئی صحیح معنوں میں مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ ہمارے نزدیک اُن کو کوئی شکست دے سکتا ہے تو میر انام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدنان کاکا خیل ہی دے سکتا ہے‘کیونکہ یہ علاقے اسلامی ووٹ بینک کے علاقے ہیں اور وہاں سے الیکشن لڑ کرقومی اور صوبائی اسمبلی تک پہنچنا مجھے بظاہر کوئی ایسا مشکل کام نہیں لگتا ۔ لیکن چونکہ تقسیمِ کار بھی ہے اور اصل چیز ترجیح ہے ‘ ترجیح کچھ اس طرح رہی کہ میں بالکل یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے جو ان میدانوں میںکام کر سکتے ہیں اُن کے لیے کسی اور کام کو اپنے لیے ترجیح بنانا بالکل ٹھیک کام نہیں ہے۔ اور بہت سارے لوگ اُس کام کو کر رہے ہیں اور اُن کا مزاج اُس کے لیے زیادہ موافق ہوتا ہے۔ اس لیے دور تک ان شاء اللہ اس بات کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ اس مروجہ سیاست میں کسی بھی پارٹی یا آزاد حیثیت سے پارلیمنٹ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے ۔ ہم لوگ اپنا پانچ سالہ پلان بناتے ہیں ‘ ابھی ہم نے وژن 1920-25بنایا ہے کہ 2025ء تک ہم نے کیا کام کرنے ہیں۔ تو اس میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ پاکستان کے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کے اندر ’’البرہان‘‘ کی ایک شاخ ہونی چاہیے لیکن اس میں سیاست کہیں بھی داخل نہیں ہے۔

سوال: آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اکثرکربوغہ شریف جاتے ہیں‘وہاں کیوں جاتے ہیں؟
جواب: یہ جو ہمارے ساتھ لوگ وابستہ ہوتے ہیں‘ تعلیم تو یہاں ہم دے رہے ہوتے ہیں‘ اس کے بعد ایک چیز ہوتی ہے تربیت‘ تربیت کو ایک ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کو پتا ہے کہ اس امت کی تاریخ یہ رہی ہے کہ ہمیشہ اصلاح اور تزکیہ خانقاہوں میں ہوا ہے ‘ اللہ والوں کی صحبت میں ہوا ہے ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو تواتر کے ساتھ اور ہر دور میں اس امت نے قبول کیا ہے ۔ کہ بزرگان دین ‘ اللہ والوں کی صحبت میں جاکر بیٹھنے سے انسان میں دنیا کی محبت کم ہوتی ہے‘ انسان کے اخلاق ٹھیک ہوتے ہیں ‘ صداقت ‘ امانت ‘ شرم و حیاء اور یہ اوصاف پیدا ہوتے ہیں ‘ صبر و شکر کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں تو یہ انسانوں کی بڑی بنیادی ضرورت ہے۔ اپنا تزکیہ اوراپنی اصلاح کرنا انسان کے اوپر فرضِ عین ہے، مرنے سے پہلے پہلے اور اس کو ماحول چاہیے ہوتا ہے ۔ کربوغہ شریف ایک بہت بڑا روحانی مرکز ہے اور نسل در نسل ہے۔سید عمر شاہ صاحب اس علاقے کے بہت بڑے شیخ طریقت تھے، یہ کربوغہ شریف کے موجودہ بزرگ مفتی سید مختارالدین شاہ صاحب کے پردادا تھے اور یہ سیدو بابا کے خلیفہ تھے ۔ وہ بہت مشہور بزرگ تھے‘ ان کی وجہ سے یہ گاؤں یا چھوٹی سی بستی جو ہے یہ پورے وزیرستان اور جنوبی اضلاع ‘ بنوں‘ کوہاٹ ‘ کرک ‘ ٹانک ‘ڈی آئی خان اور میانوالی‘ میانوالی اُس زمانے میں بنوں کی تحصیل تھی ۔ تو میانوالی تک اور خوشاب اور یہ جو علاقے ہیں ان علاقوں تک اُن کا ایک غیر معمولی اثر و رسوخ تھا۔ اُن کے مریدین پھیلے ہوئے تھے اور یہ بستی اس زمانے سے روحانیت کا مرکز ہے۔ اس کے بعد ان کے صاحبزادے اور ان کے پوتوں کا زمانہ آیا ۔ اور پھر یہ جو موجودہ بزرگ ہیں مفتی سید مختارالدین شاہ صاحب ‘ ایک طرف سے ان کے بزرگ قادری تھے۔ یہ قادری ہیں اپنے دادا کے سلسلے کے اندر اورپھرچونکہ یہ قطر میں رہتے تھے اور وہاں سے ان کا رابطہ مدینہ کے اندر ایک مشہور شخصیت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی صاحب سے ہوا جو فضائل اعمال کے مصنف ہیں۔ وہ مدنی تھے اور اپنی آخری عمر میں ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تھے تو وہاں یہ ان سے بیعت ہوئے اور انہوں نے ان کو بہت ہی کم وقت میں خلافت دی‘نہایت کم وقت کے اندر بغیر کسی تعارف کے۔ اس کے بعد یہ یہاں پر آگئے اور بہت کم گمنامی کی زندگی میں انہوں نے اپنی تعلیم وغیرہ مکمل کی ‘ اس کے بعد یہ عالم بنے ‘ تخصص کیا خلافت کے بعد اور پھر وہاں پر چھوٹی سی خانقاہ بنا کر بڑی سادگی کے ساتھ گمنامی کے اندر ‘ کوئی ذرائع استعمال نہیں کیے۔ لیکن ان گزشتہ پچیس تیس سالوں میں اللہ پاک نے اس روحانی مرکز کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں متعارف کرایا‘ جس کی چند خصوصیات ہیں‘ ایک تو خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہرقسم کی مسلکی تفریق سے بالاتر ہے ‘ میں اس کو واحد اتنا بڑا مرکز سمجھتا ہوں کہ جہاں پر آپ جتنا بھی وقت گزار لیں اور اس نیت سے جائیں کہ میں جا کر یہ دیکھوں گا کہ یہ لوگ مسلکی اعتبار سے کس سے وابستہ ہیں تو یہ خبر آپ کو وہاں نہیں مل سکتی۔ کسی بیان ‘ کسی تعلیمات میں نہیں ملے گی ‘ کسی چیزمیں نہیں ملے گی۔ اس لیے وہاں پر آپ کو ایک عجیب قسم کا مخلوط مجمع نظر آئے گا ۔ ہر طبقہ ٔ فکر اور ہر مکتبہ فکر سے لوگ وہاں پرآپ کو استفادہ کرتے نظرآتے ہیں۔ یہ اس خانقاہ کی ایک بڑی خصوصیت ہے‘ اس زمانے میں جب کہ معاشرہ مذہبی بنیادوں پر انتہائی تفریق کا شکارہو گیا ہے ‘ اس میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ خود اپنے آپ کو Tagنہیں کیا بلکہ وہ مستقل اس دعوت کے پرچارک ہیں کہ ہمیں ان مسلکی منافرتوں سے بالاتر ہو کر ایک امت بن کر رہنا چاہیے اور اس کا عملی ثبوت اس تربیت کے اندر وہاں دیا جاتا ہے۔ دوسرا جو اس کا اختصاص ہے وہ یہ ہے کہ ضروریات زندگی سے دور ایک مرکز ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس دور میں بھی وہاں پر بجلی نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں بہت کم علاقے ایسے ہوں گے جہاں پر بجلی نہ ہو۔ وہاں پر بجلی نہیں اور پانی کی شدید مشکلات ہیں۔ دس کنویں کھودو تو ایک میں سے تھوڑا سا پانی نکلتا ہے جو ناکافی ہوتا ہے۔ اورکنویں بھی انتہائی گہرائی میں جا کر کھودنے پڑتے ہیں۔ پانی نہیں تو گیس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بغیر پانی‘ بغیر بجلی اور بغیر گیس کے اتنا بڑا اصلاحی مرکز قائم کر دینا جس میں بعض اوقات مہمانوں کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار تک پہنچ جاتی ہے ۔ وہاں پورے علاقے میں دور دور تک کوئی ہوٹل نہیں ‘ خانقاہ کے آس پاس کوئی بازار بھی نہیں‘ کوئی بندہ بھی بازار سے کھانا نہیں لے سکتا۔ جو پکے گا خانقاہ کے اندر پکے گا اور لوگوں کوکھلایا جائے گا گزشتہ رمضان شریف میں ‘ میں وہاں پر تھا اور کچھ انتظامی کاموں میں بھی حصہ لے رہا تھا ‘ ہم نے ستائیس رمضان کی شب ‘ ختم قرآن کے موقع پر چونکہ بہت بڑا مجمع آتا ہے ‘ ستائیس رمضان کی شب کو لنگر والوں نے بتایا کہ ہم اڑتیس ہزار افراد کے کھانے کا بندوبست کیا ہے ‘ اڑتیس ہزار افراد کی افطاری اور کھانا تیار کیا گیا ہے ‘ لیکن مجمع آیا تو وہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا جتنے کی تیاری تھی اور سب کو افطاری اور کھانا دیا گیا۔ ایک فرد ایسا نہیں تھا جو بھوکا رہا ہو۔یہ ایک بڑا حیران کن منظر ہے وہاں پر کہ اتنی بڑی تعداد میں وہاں لوگوں کا جس کو ہماری زبان میں لنگر کہتے ہیں ‘یا جس کو کہتے ہیں کہ لوگوں کے لیے وہاں کھانے کی سہولت ‘ لوگ وہاں پر آئیں کھائیں اور وہاں پر رہیں ‘ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کی رہائش کا بندوبست بھی وہاں پرہونا بھی ایک عوامی خدمت ہے۔ یہ تو خیر ضروریات ہیں‘ کھانا پینا اور رہنا مقاصد تو نہیں ہیں ‘مقصد تو یہ ہے کہ ایک ایسا شب زندہ دار ماحول ہو‘ مثلاً وہاں پورا سال وہاں فجر کی اذان سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پورا مجمع اُٹھ جاتا ہے ‘ آپ کو اللہ اللہ ‘ اللہ ہو کی صدائیں ہر ہر حجرے سے ‘ ہر کمرے سے ‘ ہر مسجد سے سنائی دیں گی۔’’تراہم رکعاً و سجداً ‘‘ والی کیفیت ہو گی کوئی آپ کو رکوع میں ‘ کوئی سجدے میں‘ کوئی تلاوت کر رہا ہو گا ‘ کوئی ذکر کر رہا ہو گا ‘ کوئی ذکر جہر کی ضربیں لگا رہا ہو گا ۔ آپ سوچیں کہ ایک جنگل ہو ‘ جہاں کوئی آبادی نہ ہو ‘ ایک پہاڑ کی وادی ہو ‘ اور اس کے اندر ایک خانقاہ ہو اور فجر کا وقت ہو اور ایسی آوزیں آسمانوں کی طرف جا رہی ہوں تو وہ ایک عجیب منظر بنتا ہے ‘ اسی طرح فجر ‘ پھر اشراق پھر باقی اوقات تک کے معمولات ‘ ایک دفعہ میں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کو یہ کارگزاری سنا رہا تھا ‘ میں نے کہا کہ حضرت اس طرح وہاں معمولات ہیں ‘ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ کبھی تشریف لائیں اورآپ کا بیان ہو وہاں پر ‘ تاکہ وہاں جو لوگ ٹھہرے ہوں اُن کو فائدہ ہو ۔ کہنے لگے کہ مجھے بیان کرنے کے لیے تو نہیں کچھ وقت کے لیے ان معمولات کا حصہ بننے کے لیے آنے کا دل چاہتا ہے کہ میں بھی ان معمولات کا حصہ بنوں۔میں نے کہا کہ حضرت یہ ایک خودکار نظام ہے ‘ جو بندہ آ جاتا ہے وہ اُس خودکار کام میں لگ جاتا ہے ‘ توکہا کہ مجھے بھی اس خود کار نظام کا حصہ بننے کا دل چاہتا ہے۔ یہ ان کی تواضع ہے ‘ ورنہ وہ اتنے بڑے حضرت ہیں اور وہ تو خود ہمارے شیخ کے بھی استاد ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ان کی تواضع اور خاکساری ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں بھی اس نظام کا حصہ بننے کی ضرورت محسوس کرتاہوں۔ ورنہ ہمارا مقصد تو یہ تھا کہ وہ بیان کے لیے تشریف لائیں۔ یہاں سے جو لوگ وہاں جاتے ہیں ‘ اور الحمد للہ بڑی تعداد میں جاتے ہیں‘ آپ کو حیرت ہوگی کہ کبھی کبھی ان پروفیشنلز کو جو ہمارے پاس پڑھتے ہیں ‘ دو دو ڈھائی ڈھائی سو کی تعداد میںلے کر جاتے ہیںاور ایک دو یا تین روز وہاں پر گزارتے ہیں اور جتنی چھٹی ہوتی ہے وہ وہاں پرگزارتے ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک نیا تجربہ ہوتا ہے ایک بالکل نیا تجربہ ‘ وہ واپس آ کر اتنے حیران ہوتے ہیں ‘ کہتے ہیں کہ ہمیں تو نہیں پتا تھا کہ دنیا میں اس طرح کا نظام بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ معاف کرے عام طور پر لوگوں کو خانقاہ کے لفظ سے یا پیر مریدی کے لفظ سے ‘ یا اولیاء اللہ کے لفظ سے ایک منفی سی شکل بنتی ہے ‘ مثلاً یہ کہ اللہ نہ کرے کوئی بندہ اگر ملنگ سا ہے ‘ مجذوب سا ہے اور وہ چرس کے سوٹے لگا رہا ہے اور ناچ رہا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف اس چیز کا نام ہے ‘ یہ ایک عمومی غلط فہمی پیدا ہوئی ہے معاشرے کے اندر جس میں تصوف کی ایک منفی تصویر لوگوں کے سامنے گئی ہے اور ایک عام آدمی جس کو کبھی صحیح آدمی سے واسطہ نہ پڑا ہو وہ یہی سمجھتا ہے۔ یہ ایک محض بڑی بات ہے لوگوں کی یہ غلط فہمی رفع ہونا کہ تصوف کس کو کہتے ہیں اور اللہ والے کتنی پاکیزہ زندگیاں گزارتے تھے اور آج بھی ہیں۔ اور تصوف شریعت پر عمل کرنے کو کہتے ہیں کوئی شریعت سے علیحدہ کر کے نئی چیز نہیں ہو سکتی بلکہ شریعت پر عمل کرنے کے لیے جو روح چاہیے ہوتی ہے جو جذبہ چاہیے ہوتاہے ‘ جو تحریک چاہیے ہوتی ہے وہ پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی خدانخواستہ شریعت محمدیؐ سے ہٹ کر کوئی چیز بالکل بھی نہیں ‘ اگر کوئی چیز ہٹ کر ہے تو ہم اس کو تصوف نہیں سمجھتے۔
سوال: آج کے نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے؟
جواب: یہ بات بہت اہم ہے کہ نوجوان نسل سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے ۔ میں عام طور پر نوجوانوں کو دو چیزیں کہتا ہوں۔ پہلے نمبر پر تو یہ کہ اُن کو اپنے دین اور اس کی ضروری معلومات سے اور اس پر ضروری عمل کرنے کے جذبے سے اپنے آپ کو ضرور روشناس کرانا چاہیے۔ اور اس کی شکلیں اور صورتیں ڈھونڈنی چاہئیں۔ اور دوسرا یہ ہے کہ اُن کو اپنے ہنر اور اپنے فن میں طاق ہونا چاہیے ‘ جس لائن کو وہ اختیار کریں ‘ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کاموں کے اندر اتقان اور احسان پسند ہے ‘ محدثین نے اس کی شرح یہی کی ہے کہ اپنے اتقان کو انہوں نے کہا ہے اپنے کاموں میں مہارت ‘ جس لائن کے آپ ہیں ‘ آپ سائنسدان ہیں ‘ لیکچرر ہیں ‘ پروفیسر ہیں ‘ آئی ٹی ایکسپرٹ ہیں ‘ جرنلسٹ ہیں ‘ جو بھی آپ کی لائن ہے ‘ اس لائن میں ایسی محنت کر کے ایک کمال پیدا کرنا ‘ یہ ہر نوجوان کو پیغام ہے۔ ہر ایک کی یہ جو انفرادی صلاحیت ہے یہ دراصل امت کی اجتماعی صلاحیت کا حصہ بن جاتی ہے ۔ ہمیں یعنی مسلمانوں کو ہر فن کے اندر باکمال لوگ چاہئیں ‘ میڈیکل سائنس میں چاہئیں‘ انجینئرنگ میں چاہئیں ‘ آئی ٹی میں چاہئیں‘ جرنلزم میں چاہئیں‘ ایگری کلچر میں چاہئیں ۔ یہ ہے اتقان۔ اور احسان یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہم کر رہے ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو‘ امت کے لیے ہو‘ دینی جذبہ سے ہو اور ضروری دینی تعلیم جو ہمارامقصد زندگی ہے ۔ فرض علم جو ہے اس کی ہر فرد کے اندر یہ پیاس ‘ یہ تڑپ اور یہ طلب پیدا کی جائے کہ کم از کم فرض علم ضرور حاصل کریں‘ اس سے اوپر تو پھر درجات ہیں‘ کہ جہاں تک کوئی جا سکتاہے۔لیکن علم دین کی جو فرض مقدار ہے جس کے بغیر کسی مسلمان کی زندگی کا تصور نہیں ہو سکتا ‘ اس کی طلب اُس میں ضرور ہو اوراپنے گرد و نواح میں جہاں وہ آسانی محسوس کرے جہاں سہولت محسوس کرے وہاں سے وہ اس کو ضرور حاصل کرے۔(ختم شد)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button