مسافر کو بے صبری مہنگی پڑ گئی
15جنوری 1986ء کا واقعہ ہے کہ انڈین ایئر لائنز کا ایک جہاز (فلائٹ نمبر 406) بمبئی سے دہلی کے لیے اُڑا۔ مگر صرف پندرہ منٹ بعد وہ واپس ہوا اور دوبارہ بمبئی کے ہوائی اڈہ پر اتر گیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ یہ جہاز کسی ٹیکنیکل سبب سے آدھ گھنٹہ لیٹ ہو گیا تھا۔ جہاز جب اوپر فضا میں پہنچا تو اس کے ایک مسافر نے کیپٹن بھٹنا گر کے نام ایک نوٹ بھیجا کہ وہ بتائے کہ جہاز آدھ گھنٹہ لیٹ کیوں روانہ ہوا ہے؟ کیپٹن نے مذکورہ مسافر کو کاک پٹ میں بلایا اور وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ لیٹ ہونے کی وجہ کیا تھی۔ مسافر اس کی وضاحت سے مطمئن نہیںہوا اور کیپٹن کی پیٹھ میں گھونسہ مار کر کہا کہ میں نے تمہارے جیسے بہت پائلٹ دیکھے ہیں:
I have seen many pilots like you.
کیپٹن بھٹنا گر اس صورت حال سے گھبرا اٹھے ۔ انہوں نے فوراً جہاز کو موڑ دیا اور اس کو واپس لا کر دوبارہ بمبئی کے ہوائی اڈہ پر اتار دیا۔ اس کے بعد بمبئی کے ہوائی اڈہ پر کافی دیر تک ہنگامہ برپا رہا۔ بالآخر انڈین ایئر لائنز کے ذمہ داروں نے جہاز کو دوسرے پائلٹ کے ذریعہ روانہ کیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذکورہ جہاز جب بمبئی سے دہلی پہنچا تو وہ تین گھنٹے لیٹ ہو چکا تھا۔ مسافر نے آدھا گھنٹہ کی تاخیر برداشت نہ کی۔ اس کی قیمت انہیں یہ دینی پڑی کہ وہ تین گھنٹہ تاخیر کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچے ۔ مزید یہ کہ انڈین ایئر لائنز کے ذمہ داروں نے ایک انکوائری (High level inquiry) بٹھائی ۔ مذکورہ مسافر کسی سزا سے بچ بھی گیا لیکن وہ ایک انجام سے نہیں بچ سکے۔ اسی چیز کی اور زیادہ قیمت دینا پڑی جس کی وہ تھوڑی قیمت دینے پر راضی نہیں ہوئے تھے‘ یعنی وقت۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کر رہا ہے ‘حالانکہ وہ اپنے مقصد کو کھو رہا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہوں حالانکہ اس کی تیزی کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی منزل سے کچھ اور دور ہو جائے۔