نہ جاننا غنیمت، جاننا کا کرب کا باعث بن گیا
1950کی دہائی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک معروف ادیبہ جو پاکستان آنے سے قبل بھارت میں پائلٹ بھی رہ چکی تھی‘ لاہور سے لندن جا رہی تھی۔ رات کا سفر تھا۔ڈھائی تین بجے کے قریب طیارے میں کوئی نقص پیدا ہو گیا ۔ اس کی آواز خاصی بدل چکی تھی اور لرزش بھی نمایاں تھی۔ طیارے کا عملہ پریشان تھا۔ وہ ایک ایک کر کے پائلٹ کے کیبن کی طرف ایسی احتیاط سے جا رہے تھے کہ مسافروںپر گھبراہٹ طاری نہ ہو جائے۔
اس ادیبہ نے ایک سٹیوارڈ کو اشارے سے بلایا اور پائلٹ کے کیبن میں جانے کی اجازت مانگی اور اپناتعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’’شاید میں کچھ مدد کر سکوں۔‘‘
وہ تیزی سے اندر گیا اوروہیں اشارے سے اس کو بھی بلا لیا۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کی فنی جان پڑتال کے بعد وہ نقص دور ہو گیا اور طیارہ پھر نارمل رفتار سے پروازکرنے لگا۔
اس خاتون کا کہنا ہے کہ جب وہ کیبن سے نکل کر اپنی نشست کی طرف آنے لگی تو اس نے مسافروں میںسے بعض کو خراٹے لیتے ‘ بعض کو خوش گپیاں لڑاتے اور بعض کو رسالہ پڑھتے ہوئے دیکھا تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکی کہ ان کی بے فکری ان کے نہ جاننے کا نتیجہ تھی۔