ڈاکٹر: جس کا ایک منٹ قیمتی تھا

ڈاکٹر احمد سعودی عرب کا بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج ہے۔ لوگ اس سے چیک اپ کروانے اور مشورہ لینے کیلئے دور دراز سے آتے اور دیر تک انتظار کرتے ہیں۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ سعودی عرب کے شہر ابہاء میں ایک انٹرنیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہونے جا رہا تھا۔ جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر احمد کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں مقالہ پڑھے گا اور اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے گا۔ ڈاکٹر احمد ریاض میں اپنے گھر سے ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ آج وہ بہت خوش اور پر سکون تھا کہ آج شام اسے خصوصی تکریم اور عزت سے نوازا جائے گا۔ یہ سوچ کر وہ اور زیادہ آسودہ ہو جاتا۔
ایئر پورٹ پر معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی وہ ہوائی جہاز میں سوار ہو گیا اور اس کی فلائٹ شیڈول کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ایئر ہوسٹس کی آواز سنائی دی۔ وہ اعلان کر رہی تھی: ’’معزز حضرات! ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کی وجہ سے اسے قریبی ایئر پورٹ پر اتارا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے‘‘۔
فلائٹ بغیر کسی دشواری کے طائف کے قریبی ایئر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ایئر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا کہ خرابی درست ہونے کا فوری امکان نہیں۔ مسافروں کو متبادل طیارہ آنے تک انتظار کرنا ہو گا۔ نیا طیارہ کب آئے گا؟ کسی کو علم نہ تھا۔ پھر کچھ دیر بعد اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آ سکتا ہے۔ ہم اس زحمت کیلئے معذرت خواہ ہیں۔
ڈاکٹر احمد کیلئے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور چونکا دینے والا تھا۔ آج کی رات تو اس کی زندگی کی بہت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس کا منتظر تھا۔ اس کی تکریم ہونے والی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ایئر پورٹ کے اعلیٰ افسر کے پاس جا پہنچا۔ اپنا تعارف کروایا اور کہا: ’’میں انٹرنیشنل معیار کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے۔ مجھے آج رات فلاں شہر میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کیلئے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں مژدہ سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ سولہ گھنٹے بعد آئے گا؟‘‘ متعلقہ افسر نے جواب دیا: ’’محترم ڈاکٹر صاحب! ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں۔ ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نہ ہی نیا طیارہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔ البتہ ابہاء شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کیلئے جانا ہے، زمینی راستے سے فقط تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے، تو ایئر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے مطلوبہ شہر پہنچ جائیں‘‘۔
ڈاکٹر احمد لمبی ڈرائیونگ پسند نہ کرتا تھا۔ مگر مجبوری تھی۔ اس کے پاس کوئی متبادل صورت بھی تو نہیں تھی۔ اس نے آفیسر کے مشورے کو پسند کیا اور کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ اس نے کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ اچانک موسم خراب ہونا شروع ہو گیا۔ آناً فاناً سیاہ گھنے بادلوں نے آسمان ڈھانپ لیا۔ تیز آندھی اس پر مستزاد تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زوردار بارش شروع ہو گئی۔ اندھیرا چھا گیا اور آہستہ آہستہ وہ راہ سے بھٹکنے لگا۔ اس کی گاڑی کا رخ کسی غلط سمت مڑ گیا۔ موسم کی خرابی کے باعث اسے اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ وہ کدھر جا رہا ہے۔ دو گھنٹے کی مسلسل ڈرائیونگ کے بعد اسے یقین ہو گیا کہ وہ راستہ بھٹک چکا ہے۔
بھوک اور تھکاوٹ کا احساس بھی اسے ستانے لگا۔ اس کے پاس کھانے پینے کی کوئی خاص چیز بھی نہیں تھی۔ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش اس کے دل و دماغ پر سوار تھی، جہاں کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔ وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا اور رات کا اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا۔ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے گزرا اور غیر شعوری طور پر اپنی گاڑی ایک معمولی سے گھر کے سامنے روک دی۔ اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر تھا۔ وہ اسے کھٹکھٹا رہا تھا۔ اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آواز اس کے کانوں میں پڑی، جو کہہ رہی تھی: ’’بیٹا! جو بھی ہو اندر آجاؤ، دروازہ کھلا ہے‘‘۔ ڈاکٹر احمد گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا: ’’اماں جی! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے۔ کیا میں آپ کا موبائل استعمال کر سکتا ہوں؟‘‘ بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: ’’بیٹے! کون سے فون کی بات کر رہے ہو، شاید تمہیں معلوم نہیں کہ تم کہاں ہو۔ ہمارے ہاں بجلی ہے، نہ ٹیلی فون، یہ تو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں شہری سہولتوں کا کوئی تصور نہیں ہے۔ میرے بیٹے! وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھا ہے۔ لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔ راستہ بھٹک گئے ہو۔ تم پہلے کھانا لو، پھر بات کرتے ہیں۔ تمہارا سفر بھی خاصا طویل ہے‘‘۔ ڈاکٹر احمد نے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ سفر کی تھکاوٹ کے ساتھ اسے شدید بھوک بھی ستا رہی تھی۔ اچانک بوڑھی عورت کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔ بوڑھی نے اس بچے کو تھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔ وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کیلئے لمبی لمبی عاجزانہ دعائیں کر رہی تھی۔
ڈاکٹر احمد نے کھانا کھایا اور خاتون سے کہنے لگا: ’’اماں جان آپ نے اخلاق، کرم اور میزبانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔ آپ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ حق تعالیٰ آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا‘‘۔
’’میرے بیٹے!‘‘ وہ بڑھیا گویا ہوئی: ’’میرے رب نے ہمیشہ میری دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعف ایمان کی وجہ سے پوری نہیں ہوئی۔ تم تو مسافر ہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے‘‘۔
ڈاکٹر احمد کو اشتیاق پیدا ہوا، کہنے لگا: ’’اماں جان وہ کون سی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔ آپ مجھے اپنا کام بتائیں، میں آپ کے بیٹے کی طرح ہوں۔ ان شاء اللہ اسے ضرور کروں گا۔ آپ کی خواہش کا پورا پورا احترام کروں گا‘‘۔
وہ خاتون کہنے لگی: ’’میرے عزیز بیٹے! وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیں بلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔ اس کے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں اور اسے ہڈیوں کی ایک بیماری ہے، جس کی وجہ سے یہ چلنے پھرنے سے معذور ہے۔ میں نے اس کے بہت علاج کروائے ہیں۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئی ہوں۔ مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں۔ لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں احمد نام کا ایک ڈاکٹر ہے، جو اس مرض کے علاج کا ماہر ہے۔ اس کی شہرت دور دور تک ہے۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے، جو اس کا آپریشن کر سکتا ہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دور ریاض میں رہتا ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں۔ تم میری حالت دیکھ رہے ہو۔ میں عمر رسیدہ ہوں۔ کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔ مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کون کرے گا، اس لئے میں ہر وقت حق تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ میں اس بچے کو ڈاکٹر احمد کے پاس لے جا کر علاج کروا سکوں۔ ہو سکتا ہے کہ اس یتیم بچے کو ڈاکٹر احمد کے ہاتھوں شفا مل جائے‘‘۔
ڈاکٹر احمد اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ رندھی ہوئی آواز میں اس نے کہا: ’’اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا۔ پھر خوب طوفان آیا، آندھی اور بارش آئی۔ رب تعالیٰ نے مجھے گھیر گھار کر آپ کے گھر بھجوا دیا۔ آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا فرما دیئے ہیں کہ ڈاکٹر احمد خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا ان شاء اللہ پوری محنت اور توجہ سے علاج کروں گا‘‘۔
’’بے کس کی پکار کو، جب کہ وہ پکارے کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود برحق ہے۔ تم لوگ بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو‘‘۔ (سورۃ النمل: 62/27)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button