نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، قسط دوم

سوال :کیا آپ نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کی ہے،اپنے ادارے’’البرہان‘‘کیلئے اسلام آباد کے پوش ایریا کا انتخاب کیوں کیا؟
جواب:دینی علوم سے فراغت کے فوراً بعد ہی میرا یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ زیادہ انٹرایکشن رہا، کراچی میں، میں جہاں پر پڑھاتا تھا، وہاں پربھی میرا واسطہ یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے طلبہ کے ساتھ تھا۔ وہاں ایک چار سال کا کورس تھا جس میں یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے طلبہ پڑھتے تھے۔ پھر بہت جلدی پرویز مشرف والی تقریر کی وجہ سے عمومی طور پر پورے ملک می میرا تعارف ہو گیا تھا، مختلف بار کونسلز میں اور چیمبرز آف کامرس میں، یونیورسٹیوں میں، کالجوں میں اور سکولز کے Annual Days میں شرکت کیلئے بلایا جاتا، اس لیئے مجھے چھوٹی عمر ہی میں روایتی اور مذہبی جلسوں کی بجائے اس قسم کے سیمینارز میں، سمپوزیم میں اور کانفرنسز میں اور لیکچرز وغیرہ کازیادہ تجربہ ہوا، اس سے کچھ عوامی انٹرایکشن بڑھا تو اندازہ ہوا کہ کیا کام کرنا چاہیے۔

روایتی تعلیم کے ادارے جو میں معاشرے کے لیے بہت زیادہ ضروری سمجھتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ الحمدللہ ان کی تعداد کافی ہے، اگر کسی بندے نے کہیں پر بھی دینی تعلیم حاصل کرنے ہے تو اس کو زیادہ لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ مثلاً اگر آپ اسلام آباد یا راولپنڈی میں رہتے ہیں یا آپ مردان یا چارسدہ میں رہتے ہیں یا پھر کہیں پر بھی رہتے ہیں، اگر آپ نے یا آپ کے بچے نے دینی تعلیم حاصل کرنی ہے تو آپ کو پانچ دس کلومیٹر کے رداس کے اندر دینی تعلیم کا ادارہ ضرور مل جائے گا۔ جو بچے سفر کرتے ہیں وہ اختیاری کرتے ہیںاور چترال سے کراچی تک جاتے ہیں۔

اس لئے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ جو عام پروفیشنلز ہیں، بزنس کمیونٹی ہے، یونیورسٹی سٹوڈنٹس ہیں ان کو دینی تعلیم سے روشناس کرانے کا اور ساتھ ایک اصلاحی اور تربیتی نظام کے اندر، اس طرح ادارے اور نظام کی بڑی کمی ہے۔ مثلاً اگر کوئی صحافی دین پڑھنا چاہے، پھر ایسے ماحول میں پڑھنا چاہے جہاں اُس کا کوئی فرقہ وارانہ پس منظر نہ ہو، جہاں پر کسی خاص قسم کی شدت پسندانہ تعلیم کا مسئلہ بھی نہ ہو، ایک عام انسان، کھلے ذہن کے ساتھ قدرے آزاد ماحول میں اپنی ضروری دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے یا ضروری دینی چیزوں پر عمل کرنا چاہتا ہے، اگر آپ دیکھیں کہ کسی بھی شہرمیں اس کے پاس کیا مواقع ہیں تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوں گے کیونکہ اگر آپ کسی دینی تعلیمی ادارے میں جائیں گے تو آپ کو آٹھ دس سال چاہئیں، فل ٹائم چاہیے، ہم نے اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے ایک جدید طرز کے ارادہ کا کیا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس میں بڑی غیر معمولی قسم کی مدد ہوئی ۔

سوال:مالی مسائل کیسے حل ہوتے ہیں؟
یہ ایک ایسا نظام تھا جس میں کسی قسم کی بہت بڑی فنڈنگ کی ضرورت نہیں تھی ۔ مثلاً ہمیں صرف ایک ایسی جگہ چاہیے تھی جہاں پر کلاسز لگائی جا سکیں۔ ہمیں جو اساتذہ ملے تھے وہ سارے رضاکار تھے، کیونکہ یہ پارٹ ٹائم تھا اورہفتہ وار تھا، بہت سارے علماء ایسے ہیں جو ویک اینڈ پر میسر ہوتے ہیں، مثلاً آپ کئی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں لیکن آپ کی ہفتہ وار چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ اس ہفتہ وار چھٹیوں میں ہم اس کو چلارہے تھے۔ شروع میں ہمیں جو اساتذہ پڑھا رہے تھے اُن میں سے کچھ یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے جنہوں نے کہا کہ ہفتہ اتوار کو ہم اللہ کی رضا کے لیے تعاون کریں گے تو اس طرح ہمارے اوپر کوئی بہت بڑی تنخواہیں نہیں آئیں۔ میں خود ادارے سے کوئی تنخواہ نہیں لیتا۔ اس لیے ہمیں صرف ایک وینیو چاہیے تھا کہ جہاں بیٹھ کر پڑھایا جا سکے۔ ابتداء میں ہمارے اس کے علاوہ کوئی اخراجات نہیں تھے۔ الحمدللہ وہ کام اللہ تعالیٰ نے بڑی آسانی کے ساتھ چلا دیا۔ اور جو رسپانس آیا وہ بہت حیران کن تھا اور اُس کو دیکھتے ہوئے پورے پاکستان میں بھی ویک اینڈ کورسز کی ایک ہوا چل گئی۔ ہم نے اسلام آباد سے ابتدا کی اور اسلام آباد میں کامیابی کے بعد کراچی گئے تو وہاں بہت زیادہ کامیابی ملی، اب لاہور سے ہم اپنی رجسٹریشن کا آغاز کر رہے ہیں۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور سے بیک وقت 2020ء کے لیے ہمارے داخلے ہوںگے ۔ جنوری 2020ء سے جو ہمارا نیا کورس شروع ہو رہا ہے ۔ ہمارا پشاور کابھی ارادہ ہے لیکن ابھی وہاں جگہ نہیں مل رہی ہے ۔ پشاور میں غیر معمولی طلب ہے اس لیے ہم کسی چھوٹی جگہ پر اس کو اناؤنس نہیں کر سکتے کہ جس میں صرف سو داخلے ہو سکتے ہوں، کیونکہ ہمارا اندازہ ہے کہ پشاور میں ہمیں آنے والی درخواستوں کی تعداد 2000سے تجاوز کر سکتی ہیں، ایک بہت بڑی تعداد کو اگر آپ انکار کریں تو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ذہن اس طرف جاتا ہے کہ پڑھاتے تو ہیں نہیں بس اشتہاردیتے رہتے ہیں، لوگ آئندہ درخواست ہی نہیں دیتے۔ اسلام آباد میں ہمارے ساتھ اس طرح ہوا ہے، ہم نے جب بہت زیادہ لوگوں کو انکار کر دیا تو شہر کی عمومی فضا یہ بن گئی کہ یہاں داخلہ نہیںملتا اس لیے اس میں اپلائی کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے لیے ہمیں بہت بھاری داخلے دینے پڑے ۔ اگلے بیجز کے اندر ہمیں چار چار سو داخلے دیے ‘ اس خیال سے دیے کہ اس فضا کو ٹھیک کیا جائے کہ داخلہ ملتا ہے اور اپلائی کرنا چاہیے۔
سوال: مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں میں آپ کو یکساں مقبولیت حاصل ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: میرا خیال ہے کہ جو لوگ مذہب سے قدرے دور سمجھتے جاتے ہیں یا جو روایتی معنوں میں دیندار نہیں ہوتے اُن کا ایک لہجہ ہے‘ یا کہہ لیں کہ اُن کا گفتگو کا ایک الگ انداز ہے ‘ اُن کا ایک طرز ہے کسی بات کو سمجھنے یا کرنے کا ۔ ان کے ساتھ اپنے انٹرایکشن کے ایک طویل تجربے کی وجہ سے اُس محاورہ میں ہمیں اُن کے ساتھ بات کرنا آسان ہے ۔چاہے وہ کلاسز ہوں ‘ چاہے وہ کانفرنس ہو یا سمپوزیم ہو یا کہیںپر لیکچر ہو اُن کو اجنبیت نہیں محسوس ہوتی‘ ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ کسی دور دراز علاقے سے ہم سے خطاب ہو رہا ہے جس میں ہماری اوران کی فریکوئنسی میچ نہیں کر رہی اور ایک اجنبیت ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک وجہ بنی ہے ‘ خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہمارے گرد جمع ہونے کی ‘ ادھر سے مستفید ہونے کی اور فائدہ اٹھانے کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک خاص قسم کی مناسبت محسوس ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے ادارے میں تھوڑی سی ریلیکسیشن کا نظام متعارف کرایا ہے ۔ کسی دینی ماحول میں جانے کے لیے جو ظاہری تقاضے جن پر بعض اوقات بہت اصرار ہوتاہے ‘ لباس پر ‘ وضع قطع پر‘ شکل و صورت پر ۔ کوئی بھی دینی ماحول اس کا عام طور پرفوری تقاضا کرتا ہے ۔ ہم نے تھوڑا اس چیز کو مؤخر کیا اور اپنے نوجوانوں کو یہ آزادی دی کہ وہ جس لباس میں مرضی ‘ جس شکل و صورت کے ساتھ ‘ جس پس منظر کے ساتھ آنا چاہیں ان کلاسز میں آئیں۔ آپ کبھی ہماری کلاسز میں آئیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ لوگوں نے جینز پہنی ہوئی ٹی شرٹس پہنی ہوئی ہیں اور ٹراؤزرز پہنے ہوئے ہیں‘ جو بھی اُن کا لباس ہے وہ اس کے اندر آ جاتے ہیں ‘ بیٹھتے ہیں ‘ پڑھتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کے اندر ایک اندرونی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ ہمارا زیادہ فوکس باطنی اور اندرونی چیزوں کے اوپر ہے۔اخلاق پر ‘ کردا ر پر ‘ تربیت پر ‘ سچ بولنے پر ‘ امانت پر ‘ عبادات کے اندر خشوع و خضوع پیدا کرنے پر ‘ جب اس پر فوکس کرتے ہیں تو اس کو ہر بندہ اپنی ضرورت سمجھتا ہے ۔ اُس کا باطن کے ساتھ ‘ ظاہر کی باطن کے ساتھ ایسی وابستگی ہے کہ وہ ہمارے کہے بغیر ‘ ہماری طرف سے کوئی چیز مسلط کیے بغیر ‘ اُس پر زور دیے بغیر ‘ اللہ تعالیٰ اسے اس کے مطابق تبدیل کر دیتا ہے۔ویک اینڈ آزاد دن بھی ہوتا ہے اور اس میں انسان بالکل ایک فارمل ماحول میں تنگ ہوجائے اگر آپ اس کو پابند کر دیں۔ الحمدللہ یہ تجربہ اس حوالے سے کامیاب ہے کہ کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان ظاہری چیزوں کوضرورت نہیں سمجھتے یا اس کو اہمیت نہیں دیتے‘ لیکن اس کو زندگیوں میں لانے کے لیے ہماری سٹریٹجی یا ترتیب تھوڑی ریلیکسڈ ہے۔ وہ ذرا آرام آرام سے ہے اور اپنی ایک اور ترتیب کے ساتھ ہے ۔ اُس کی ترجیح ہم نے وہی رکھی ہے جو شریعت میں اس کی ترجیح ہے۔ اس کو کسی اعتبار سے بھی زیادہ اہم ضروریات پر مقدم نہیں کیا۔

سوال: آپ نے بظاہراپنے آپ کو درس و تدریس اور دعوتی کاموں کے لیے وقف کردیا ہے ، شہرت کو دیکھ کر کاپوریٹ سیکٹرز کی طرف سے آفرز تو ہوتی ہوں گی؟
جواب: جی بہت موقعوں پر آفرزآتی ہیں اور میں ان سے وابستہ بھی ہوں کہ میں ایک اسلامی بینک کے شریعہ بورڈ کا ممبر ہوں۔ لیکن شریعہ بورڈ کی ممبری ایسی ہوتی ہے کہ وہ بڑا ہی بے ضرر سا کام ہوتا ہے ۔ اس کی دو تین ماہ میں ایک آدھ ہی میٹنگ ہوتی ہے یہ میرے لئے بہت آسان ہوتا ہے اس سے زیادہ کیلئے میرے پاس وقت نہیں ہوتا۔ پہلی ترجیح اسی کو بنایا ہے کہ ہم تعلیم کو ‘ دعوت کو اور اصلاح و ارشاد کو وقت دیں‘ یہ تین کام ہمارے ہاں بیک وقت چلتے ہیں ۔ہماری دعوتی سرگرمیاں‘ ہماری تزکیہ اور اصلاح کی سرگرمیاں اورہماری تعلیمی سرگرمیاں ۔یہ تین ہماری پہلی ترجیحات ہیں ۔اُس کے بعد اگر کچھ وقت بچتا ہے تو ہم رفاعی سرگرمیاں کرتے ہیں ۔ اس طرح کے کسی علاقے میں جانا وغیرہ۔ان شاء اللہ ہم مکاتب کا نظام لا رہے ہیں ‘ دور دراز دیہاتوں کے اندر ایسے مکاتب قائم کریں گے جو بچوں کو خواندگی دیں‘ یعنی دین بھی ہو گا اور خواندگی کی ایک مہم بھی ہو گی ۔ جو بچے کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے اُن تک ضروری تعلیم پہنچانا اور ان تک منتقل کرنے کی کوشش کرنا ‘ اس کے علاوہ سٹریٹ چلڈرن وغیرہ ۔ اس طرح کے بچوں کو کسی درجے میں کسی تربیتی نظام سے گزارنا ۔ بعض بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ تہذیب سے بھی دور رہ جاتے ہیں ‘ اس کو اگرچہ ہم چھوٹے پیمانے پر کر بھی رہے ہوتے ہیں لیکن اس کو ذرا بڑے پیمانے پر کرنے کا ارادہ ہے ۔ (جاری ہے)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button