قوموں کا ارتقائی سفر

جارج برنارڈشا انگریزی زبان کا مشہور ادیب اور مفکر ہے۔ اس نے شیکسپیئر سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے:
"He was a much taller man than me but I stand on his shoulders.”
وہ مجھ سے بہت زیادہ لمبا انسان تھا مگر میں اس کے کندھوں پر کھڑا ہوں۔ برنارڈشا ، شیکسپیئر کے مرنے کے تقریباً ڈھائی سو سال بعد 1856ء میں پیدا ہوا۔ شیکسپیئر (1564-1616ء)نے اپنے زمانہ میںانگریزی زبان کو جہاں پایا تھا اس پر اس نے اپنی کوششوں سے مزید اضافہ کیا۔ حتیٰ کہ اس کو ترقی کے ایک نئے مرحلے میں پہنچا دیا۔ شیکسپیئر کے بعد سینکڑوں اہل قلم پیدا ہوئے جو اس کو مزید آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں تک کہ زبان اس اعلیٰ ترقی یافتہ مرحلہ تک پہنچ گئی جہاں سے برنارڈشا کو موقع ملا کہ وہ اپنی قلمی جدوجہد کا آغاز کرے۔ برنارڈ شا کے پیش روئوں نے اگر اس کے لیے ’’کندھا‘‘ فراہم نہ کیا ہوتا تو برنارڈ شا کے لیے ناممکن تھا کہ وہ ادبی ترقی کے لیے اس بلند مقام پر پہنچے جہاں وہ اپنی کوششوں سے پہنچا۔
یہی اصول زندگی کے تمام معاملات میں جاری ہے۔ پچھلے لوگ جب ابتدائی منزلیں طے کر چکے ہوں۔ اسی وقت یہ ممکن ہے کہ بعد کے لوگ آگے کی منزلوں پر اپنا سفر جاری رکھیں۔ اگر پچھلے لوگوں نے اپنے حصے کا کام نہ کیا تو آگے آنے والوں کو آگے کے بجائے پیچھے سے اپنا سفر شروع کرنا پڑے گا۔ کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ کھڑے ہوئے ہوں ، نہ کہ وہاں سے جہاں آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ جس مکان کی نیچے کی دیواریں ابھی تیار نہ ہوئی ہوں اس مکان کی بالائی منزلیں کس چیز کے اوپر کھڑی کی جائیں گی۔
جو قوم ایک ایسے ماضی کی وارث ہو جس نے وراثت میں اپنی اگلی نسلوں کو صرف رومانی شاعری اور پرجوش تقریریں دی ہوں ۔ جو غیر پختہ اقدامات کے نتیجے میں بربادیوں سے دوچار ہوتی رہی ہو۔ جو جذباتی خوش فہمیوں کی غذا کھاتے کھاتے حقیقت پسندی کا مزاج کھو بیٹھی ہو ۔ جس نے ابتدائی استحکام سے پہلے سیاست بازی میں پڑ کر اپنے مواقع کو ضائع کیا ہو۔ جو اپنی ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے تعلیم ، صنعت، تجارت اور زمانی شعور میں تمام قوموں سے پیچھے رہ گئی ہو ۔ جو مطالباتی مہموں اور احتجاجی سیاست میں یہ بھول گئی ہو کہ مانگنے سے پہلے منوانے کی صلاحیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایسی شکست خوردہ قوم کی اگلی نسلیں آگے کی منزل سے اپنا سفر شروع نہیں کر سکتیں۔ ان کو لامحالہ وہاں سے چلنا پڑے گا جہاں سے ان کے باپ دادا نے اپنا راستہ چھوڑا تھا۔ ایسے لوگ اگر دوبارہ لفظوں کی اسی بہادری میں مشغول ہو جائیں جس میں ان کے پیش رو مشغول تھے تو یہ صرف اس وقت کو مزید ضائع کرنے کے ہم معنی ہو گا جس کو ان کے باپ دادا بہت بڑی مقدار میں ضائع کر چکے ہیں۔ عملی نتیجہ صرف عملی کاموں کے ذریعے پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ الفاظ کی کھیتی سے عمل کی فصل نہیں کاٹی جا سکتی۔ قدرت کو ایک درخت اُگانا ہوتا ہے تو وہ بیج سے اپنا عمل شروع کرتی ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے انسان کے لیے ایک خاموش سبق ہے… ’’بیج‘‘ سے چل کر کوئی بھی شخص ’’درخت‘‘ تک پہنچ سکتا ہے۔ مگر درخت سے چل کر درخت تک پہنچنا چاہیں تو ایسا واقعہ زمین پر کبھی نہیں ہو گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button