اولاد کو بددعا دینے سے گریز کریں

ایک نوجوان اپنے باپ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ ایک دن والد محترم سے کہنے لگا کہ اسے اجازت دیں، تاکہ کسی جگہ نوکری کے لیے درخواست دے سکے۔ باپ نے انکار کر دیا، بیٹے نے بار بار کوشش کی، لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ بالآخر اس نے عزم کیا کہ والد کی مرضی کے بغیر ہی چلا جائے گا۔ میرے پاس تجھے روکنے کی قوت و طاقت تو نہیں، لیکن دعا ہے جو سحری کے وقت میں بارگاہ الٰہی میں کروں گا۔

بیٹا چلا گیااور بکریاں ایک اور آدمی کے سپرد کیں اور اپنی ایک قریبی خاتون سے زادِ سفر حاصل کر لیا۔ باپ کو بھی علم ہو گیا اور وہ ایک متقی آدمی تھا، اس نے دعا کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ اٹھا دیے کہ اسے بیٹے کے بارے میں ایسی چیز دکھا جو ناپسند و مکروہ ہو۔

چنانچہ بیٹا راستے ہی میں نابینا ہو گیا، اسے اس کے قبیلے کے کچھ لوگ ملے اور پوچھنے لگے: کہاں کا ارادہ ہے؟ وہ بولا: میں نوکری کے لیے جا رہا تھا، لیکن اب تو اندھا ہو چکا ہوں۔ مجھ جیسا آدمی قطعاً قبول نہیں کیا جائے گا، وہ اسے ساتھ لے کر اس کے باپ کی طرف چلے آئے۔ رات آدھی ہو چکی تھی، با پ کی بینائی بھی کمزور تھی، کہنے لگا: کیا تو فلاں ہے؟

بیٹا بولا: جی ہاں۔ کہا: تو نے حصہ پا لیا، وہ بولا: ہاں۔ لوگوں نے بتایا کہ اس کا بیٹا اندھا ہو چکا ہے۔ باپ بڑا غم زدہ ہوا، بڑا اثر لیا، ساری رات روتا رہا، آہیں بھرتا، رکوع و سجود کرتا اور دعائیں کرتا رہا، اپنے بیٹے کی آنکھوں کو زبان سے چومتا اور روتا رہا، واللہ سمیع قریب مجیب! سو وہ نمازِ فجر کے لیے نہیں اٹھا تھا کہ اس کے بیٹے کی بینائی لوٹ چکی تھی۔

ایک دن اس نے اپنی ماں کے بچے کو تکلیف دی اور ماں کو بے حد پریشان کیا: وہ بولی: اللہ تجھے موت دے۔ وہ گھر سے نکل گیا اور ماں کو علم نہ تھا کہ اس کی بددعا قبول ہو چکی ہے۔ وہ بھاگتا ہوا نکلا اور روڈ کے درمیان آگیا، ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا گیا، ماں نے ایک عجیب آواز سنی، جس سے اس کا دل پسیج گیا۔

گھبرا کر باہر نکلی، اس کا دل کانپ رہا تھا اور وجود پر رعشہ طاری تھا اور یہ خوف چھایا ہوا تھا کہ اس کے جگر کاٹکرا چل نہ بسا ہو۔ جب اس کی بیٹے پرنگاہ پڑی تو سانسوں کی ڈوری ٹوٹ چکی تھی، وہ بے ہوش ہو کرگر پڑی، ہسپتال پہنچائی گئی اور متعدد امراض کا شکار ہو گئی۔ بار بار یہی کہا کرتی:
’’میں ہی ہوں جس نے اپنے بیٹے کو قتل کیا ہے۔‘‘

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button