چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے موت بہتر ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے سامنے چھ چیزیں ظاہر ہونے لگیں تو تمہارے لیے زندہ رہنے سے موت بہترہے۔
(۱)۔ بے وقوفوں اور نااہلوں کی امارت اور سربراہی ۔
(۲)۔ پولیس کی کثرت۔
(۳)۔ فیصلہ کی فروختگی پر ۔
(۴)۔ خون ریزی کے معمولی سمجھے جانے پر ۔
(۵)۔ رشتہ ناطہ توڑے جانے پر۔
(۶)۔ ایسی نسل پر جو قرآن کریم کو باجا گانا بنائے گی، وہ تلاوت کرنے والے کو آگے کریں گے جو ان کو قرآن گانے کی لے میں سنائے گا اگرچہ وہ دین کے فہم میں ان سے کم تر ہو گا (مگر محض خوش الحانی کی وجہ سے آگے بڑھایا جائے گا)۔‘‘
اس حدیث پاک میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ قسم کی تباہ کن چیزوں کی پیشن گوئی فرمائی ہے جن سے امت کا حال بد سے بدتر ہو جائے گا، معاشرہ نہایت خراب ہو جائے گا، اسلام کا پورا حلیہ بدل جائے گا ۔ اس وقت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی زندگی سے موت بہتر ہو جائے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں نااہل اور نادان لوگ حاکم و سربراہ ہوں گے، ان کی امارت و حکومت میں زندہ رہنے سے موت بہتر ہو گی۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے حکام اور لیڈر تم میں سب سے گھٹیا اور بدترین ہوں گے، اور بخیل تمہارے مالدار ہوں گے، اور تمہارے معاملات عورتوں کے مشوروں سے طے ہونے لگیں گے تو تمہارا دنیا میں رہنے سے مر کر قبروں میں دفن ہو جانا زیادہ بہتر ہو گا۔ (ترمذی شریف: ۲/۵۲)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پولیس والے ایسے نہیں تھے جیسے اب ہیں، پولیس کی ضرورت صرف مقامی حالات بہتر کرنے اور لوگوں کو ظلم و زیادتی سے روک تھام کے لیے پڑتی ہے۔ لیکن اب ظلم و زیادتی کو روکنے کے بجائے پولیس والوں کی طرف سے جو ظلم و زیادتیاںہو رہی ہیں، ان کی انتہا نہیں رہی۔ راستوں میں گاڑی، گھوڑوں کی ڈاکوئوں اور چوروں سے حفاظت کے لیے کتنی ہی پولیس کو متعین کر دیا جائے مگر بجائے حفاظت کرنے کے خود ہی مسافروں اور گاڑی والوں کو پریشان کرتے ہیں اور خوب رشوت لیتے ہیں،آج کل پولیس کی کس قدر کثرت ہے سب دیکھ رہے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایسی رذیل ترین پولیس کی کثرت ہو جائے تو دنیا میں زندہ رہنے سے موت بہتر ہے۔
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو قسم کے لوگ اس وقت دنیا میں موجود نہیں ہیں، وہ آئندہ چل کر پیدا ہوں گے۔
(۱)۔ وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی اور راستہ میں نہایت سنور کر بے پردہ چلیں گی، ننگے سر ہونے کی وجہ سے چلتے وقت ان کے سر اونٹوں کی کوہان کی طرح ہلتے رہیں گے۔ ایسی عورتوںکو جنت کی بو تک نصیب نہیں ہو گی۔
(۲)۔ وہ پولیس جن کے ہاتھوں میں جانوروں کی دُم کی طرح ڈنڈے ہوں گے، ان سے غریبوں اور نہتوں کو ماریں گے، ان کو بھی جنت نصیب نہ ہو گی۔ (مسلم شریف: ۲/۲۰، مشکوٰۃ ص۳۰۲)
مسند احمد میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے پر، رشوت لینے والے پر اور ان دونوں کے درمیان ترجمانی کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘(مسند احمد: ۴/۲۰۵)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں قتل و غارت گری اور بات بات پر خون خرابہ کرنا کوئی اہم بات نہ ہو گی، ذرا ذرا سی بات پر چاقو، تلوار، بندوق نکل آئیں گی، منٹوں میں قتل و خون ریزی ہونے لگے گی کون کس پر حملہ کر رہا ہے کس کی گردن ما رہا ہے، اس کی کوئی پرواہ نہ ہو گی۔ جب ایسا فتنہ و فساد کازمانہ آ جائے تو دنیا میں زندہ رہنے سے موت بہتر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ہر خطبہ میں بار بار فرمایا کہ تم میرے بعد ایک دوسرے کی گردن نہ مارنا اس سے تم پر خطرہ ہے کہ کفار و مرتد بن کر اسلام سے ہی پھر جائو گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں عزیز و اقارب کے ساتھ ہمدردی، صلہ رحمی سب ختم ہو جائیںگی۔ لوگ اپنے رشتہ داروں اور قرابتداروں سے دور رہنے میں عافیت اور خیر سمجھنے لگیں گے۔ کچھ تو اس لیے دور رہنے لگیں گے کہ ان کو قرابت داروں سے بجائے ہمدردی کے تکلیف اور ایذاء پہنچتی ہے، اور کچھ اس لیے دوری اختیار کریں گے تاکہ مدد نہ کرنی پڑے۔
ایک حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہیں، وہ ابغض الناس الی اللہ ہیں۔
(۱)۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے۔
(۲)۔ قرابت داروں کے ساتھ بے دردی سے ناتا توڑنے والے ۔
(۳) ۔ منکر اور برائی کا کام کرنے والا اور بھلائی سے روکنے والے۔ (ترغیب و ترہیب : ۳/۲۲۷)
ایک حدیث شریف میں دو کام کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین چیزوں کی بشارت ہے، وہ کام یہ ہیں:
(۱)۔ اللہ تعالیٰ کا خوف غالب رہے، تقویٰ و ورع اختیار کرے۔
(۲)۔ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرے۔
جو یہ دو کام کرے گا اس کے لیے تین بشارتیں ہیں:
(۱)۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے گا، حیات دراز کرے گا۔
(۲)۔ اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں فراوانی کرے گا۔
(۳)۔ بری موت سے اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص یہ چاہے کہ اس کی عمر دراز کی جائے، اور اس کے رزق میں وسعت پیدا کر دی جائے، اور اس سے بری موت کو دور کر دیا جائے تو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے، تقویٰ اختیار کرے اور صلہ رحمی کا عادی بن جائے۔ ‘‘(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میںلوگ قرآن کریم کو گانا اور باجا بنا لیں گے یعنی قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا گانے کی طرز پر پڑھے گا، اور لوگ کھیل تماشہ کی طرح دیکھنے اور سننے کے لیے جمع ہو جائیں گے، ان میں سے کسی فرد میں یہ داعیہ نہ ہو گا کہ قرآن سن کر اس کو سمجھے اور اس کے مطابق عمل کرے۔ آج کل ہوٹلوں، چوراہوں اور دکانوں میں عمدہ ترین قاری کی قرأت لگا دی دی جاتی ہے اور دور دور تک اس کی آواز پہنچتی ہے اور وہیں پر کوئی سگریٹ پی رہا ہوتا ہے، اور کوئی چائے پی رہا ہے، اور کوئی باتیں کر رہا ہے، کیا یہ قرآن کریم کی سخت بے ادبی اور گستاخی اور توہین نہیں ہے؟ ایک صاحب ایمان مسلمان اس کو کیسے برداشت کر رہا ہے؟ اسی لیے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب ایسا زمانہ آ جائے تو تمہارے لیے دنیا میں زندہ رہنے سے موت بہتر ہو گی۔