حقیقت پسندی زندگی کا سب سے بڑا راز
امریکہ کے ایک شخص نے 1831ء میں تجارت کی۔ اس میں وہ ناکام ہو گیا۔ 1832ء میں اس نے ملکی سیاست میں حصہ لیامگر وہاں بھی اس نے شکست کھائی ۔ 1834ء میں اس نے دوبارہ تجارت کی۔ اس بار بھی وہ اپنی تجارت کو چلانے میں ناکام رہا۔ 1841ء میں اس کے اعصاب جواب دے گئے۔ 1843ء میں دوبارہ سیاست میں داخل ہوا۔ اس کو امید تھی کہ اس بار اس کی پارٹی اس کو کانگرس کی ممبری کے لیے نامزد کر دے گی۔ مگر آخری وقت تک اس کی امید پوری نہ ہو سکی۔ اس کا نام پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں نہیں آیا۔ 1855ء میں اس کو پہلی بار موقع ملا کہ وہ سینیٹ کے لیے کھڑا ہو۔ مگر وہ الیکشن ہار گیا۔ 1858ء میں دوبارہ سینیٹ کے الیکشن کیلیے کھڑا ہوا اور شکست کھائی۔
یہ بار بار ناکام ہونے والا شخص ابراہام لنکن تھا جو 1860میں امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ اس نے امریکہ کی تعمیر میں اتنا بڑا کام کیا کہ آج وہ نئے امریکہ کا معمار سمجھا جاتا ہے۔
ابراہام لنکن کو امریکہ کی قومی اور سیاسی تاریخ میں اتنا معزز نام کیسے ملا اور وہ اس اونچے مقام تک کس طرح پہنچا۔ ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ: …… وہ جانتا تھا کہ شکست کو کس طرح تسلیم کیا جائے۔
He knew how to accept defeat.
حقیقت پسندی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے اور ہار ماننا حقیقت پسندی کی اعلیٰ ترین قسم۔ ہار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس حقیقت کا اعتراف کر لیں کہ آپ دوسروں سے آگے نہیں بلکہ دوسروں سے پیچھے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ جہاں فی الواقع ہیں وہیں نظری طور پر اپنے آپ کو کھڑا مان لیں۔ ہار ماننے کے بعد آدمی فوراً اس حیثیت میں ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کر دے۔ کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ فی الواقع ہیں نہ کہ وہاں سے جہاں ابھی آپ پہنچے ہی نہیں۔