فارن فنڈنگ، اکبر ایس بابر کی کھری کھری باتیں
جب ہم انصاف کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو اس کا آغاز اپنے گھر سے ہونا چاہئے،وقت آنے پر پارٹی کی مخلص قیادت میرے ساتھ کھڑی ہو گی، اکبر ایس بابر
فارن فنڈنگ کیس تحریک انصاف کی حکومت کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے جس سے بچاؤ کے امکانات بہت محدود ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر پُرامید ہیں کہ انہیں اس کیس میں کامیابی ملے گی۔ اکبر ایس بابر سے تفصیلی گفتگو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ پارٹی کے بانی رکن ہونے کے باوجود وہ الیکشن کمیشن میں کیس لے کر کیوں گئے تو ان کا کہنا تھا کہ جب ہم انصاف کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو اس کا آغاز اپنے گھر سے ہونا چاہئے، ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کے گھر میں برائی ہو تو آپ گلی محلے میں جا کر لوگوں کو اخلاقیات کا درس دینے کا حق نہیں رکھتے ہیں
اکبر ایس بابر نے برملا کہا کہ جب آپ خود کرپٹ ہیں اور دوسروں کو صادق و امین کی تلقین کر رہے ہیں تو یہ منافقت ہے۔ اکبر ایس بابر سے پوچھا گیا کہ آپ فارن فنڈنگ کیس میں تنہا دکھائی دیتے ہیں تحریک انصاف کے دیگر رہنما آپ کے ساتھ اس کیس میں کیوں نہیں کھڑے ہوئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ کیس پارٹی رہنماؤں کے کہنے پر ہی شروع کیا گیا تھا، اکبر ایس بابر کے بقول تحریک انصاف کے رہنما ان کے پاس آئے اور پارٹی فنڈنگ میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی اس کے بعد ہم نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بیرون ممالک فنڈنگ کیلئے جن لوگوں کو متعین کیا تھا انہوں نے خود مجھ سے رابطہ کر کے کیس چلانے کا مشورہ دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی فنڈنگ کے شواہد سامنے آنے کے بعد ہم نے اس ایشو کو اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
اکبر ایس بابر نے وثوق کے ساتھ کہا کہ وہ اس کیس میں قطعی تنہا نہیں ہیں، فوزیہ قصوری،سعیداللہ نیازی، پی ٹی آئی پنجاب کے بانی صدر اور عمران خان کے چچا زاد حفیظ اللہ نیازی، کمانڈر رضا حسین شاہ جو پارٹی کے بانی ممبر ہیں، اسلام آباد کے محمود خان ہیں، یوسف علی جو صوابی کے جنرل سیکرٹری تھے، ان کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے جو میرے ساتھ ہے اور وقت آنے پر پارٹی کی مخلص قیادت میرے ساتھ کھڑی ہو گی۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ ہم پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس کر رہے ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کے رپورٹ کے بعد اکبر ایس بابر پر امید ہیں ہیں کہ بہت جلد ان کے حق میں فیصلہ آنے والا ہے تاہم سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد حکومت و اپوزیشن دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں، حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ ان کی شفافیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف جس طرح سرخرو ہوئی وہ تاریخ کا حصہ ہے، انتظار ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی فنڈنگ کا ریکارڈ بھی سامنے لایا جائے، دیکھیں ان کے گل بھی کھل جائیں گے ‘مریم نواز نے پریس کانفرنس میں اپنی آڈیو لیک کو اصلی تسلیم کر لیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ بارش کا پہلا قطرہ ہے،تبدیلی کا اصل چہرہ سامنے آنے پر لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے، تہلکہ خیز رپورٹ میں تصدیق ہو گئی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز حاصل کئے۔ حمزہ شہباز شریف نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ فنڈز کو کم دکھایا اور درجنوں بینک اکانٹس چھپائے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر اور سیکرٹری اطلاعات کے عہدوں پہ فائز رہنے والے سابق رہنماء اکبر ایس بابر نے نومبر 2014ء کو الیکشن کمیشن میں پارٹی کی غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق درخواست دائر کی،اس پٹیشن میں انہوں نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور دیگر عہدیداران پہ بھارت اور اسرائیل سمیت بیرون ممالک سے ہنڈی اور دیگر مشکوک ذرائع سے فنڈز وصول کرنے اور منی لانڈرنگ سمیت بدعنوانی میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔اس پٹیشن کے ساتھ انہوں نے مختلف ممالک سے وصول کئے گئے فنڈز کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کرتے ہوئے پولیٹیکل پارٹیز آرڈرز 2202اور الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017ء کے تحت کارروائی کرنے کی استدعا بھی کی لیکن ساتھ سال گزر جانے کے باوجود اکبر ایس بابر الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے درمیان انصاف کے حصول کے لیے پیشیاں بھگت رہے ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت ہر فورم پہ پارٹی فنڈز کی تفصیلات فراہم کرنے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ حیلے بہانوں سے نظام انصاف میں پائی جانیوالی خامیوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کیس کو مسلسل لٹکائے جا رہی ہے۔ ان سات سال کے طویل عرصہ کے دوران اکبر ایس بابر نے ہار مانی اور نہ ہی ہمت ہاری بلکہ اپنی ہر ممکن کوشش سے امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، ڈنمارک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین میں پارٹی فنڈز کے نام پہ ہنڈی یا دیگر غیر قانونی ذرائع سے وصول کی گئی رقوم کی مالیت اور طریقہ کار بارے تمام تر تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کیں جو آج تک تحریک انصاف چھپاتی رہی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپریل 2015ء میں ابتدائی سماعت میں قرار دیا تھا کہ تحریک انصاف نے اپنی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں پارٹی فنڈز کے ذرائع اور تفصیلات کا ذکر نہیں کیا جو قانونی تقاضا ہے۔اس ضمن میں تحریک انصاف نے پارٹی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کرنے کا الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار بھی کئی بار چیلنج کیا، نومبر 2015ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی جس کی سماعت کے باعث ڈیڑھ سال تک الیکشن کمیشن کی کارروائی رکی رہی، فروری 2017ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پارٹی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کو الیکشن کمیشن کا اختیار قرار دیتے ہوئے معاملہ دوبارہ اس کے پاس بھجوا دیا۔
اس دوران تحریک انصاف نے اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کو جواز بنا کر دوبارہ پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دینے کے لیے چیلنج کیا تاہم الیکشن کمیشن نے اس کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف ایک بار پھر تحریک انصاف نے عدالت عالیہ سے رجوع کر لیا۔ گزشتہ سات سال میں مجموعی طور پہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے پارٹی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کرنے اور اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت کے حوالے سے متعدد بار رٹ پٹیشنز دائر کی گئیں۔ ایک پٹیشن میں تحریک انصاف نے پارٹی فنڈز کی اسکروٹنی کو ان کیمرہ کرنے کی استدعا بھی کی۔ 26نومبر 2015ء کو ایک رٹ پٹیشن میں عمران خان نے بیان حلفی دیا کہ وہ پارٹی اکاؤنٹس کی اسکروٹنی کے حوالے سے عام شہریوں کو جوابدہ نہیں ہیں، تاہم عدالت عالیہ نے تحریک انصاف کی تمام پٹیشنز پہ فیصلے صادر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پارٹی فنڈز کی جانچ کا مجاز قرار دیا۔
نومبر 2014ء سے اب تک الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو درجنوںتحریری احکامات جاری کئے جن میں پاکستان اور بیرون ممالک پارٹی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات اور بینک اسٹیٹمنٹ جمع کرانے کی ہدایات دی گئیں لیکن تحریک انصاف نے آج تک ان پہ عمل درآمد نہیں کیا۔
تحریک انصاف کے قائدین کہتے ہیں کہ فارن فنڈنگ کیس سے کچھ نکلنے والا نہیں ہے،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر واقعی اس کیس سے کچھ برآمد ہونے والا نہیں ہے تو پھر اس کیس سے راہ فرار کیوںاختیار کی جارہی ہے ؟پی ٹی آئی کے نوجوان رکن قومی اسمبلی مراد سعید کہتے ہیں کہ فارن فنڈنگ کی تمام تررسیدیں اور ریکارڈ موجود ہے ۔کوئی بھی معقول آدمی اس دلیل کے بعد یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہو گا کہ اگر ریکارڈ اور رسیدیں موجود ہیں اور فنڈنگ میںغیر قانونی کام کیا گیا اورنہ ہی کسی قسم کی کوئی خورد برد ہوئی ہے تو پھر کیس کو سات سال تک بلاوجہ کیوں لٹکایا گیا؟
کیس کو کئی سال تک لٹکانے کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نیا مطالبہ سامنے آیا کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی پارٹیوں کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ایک ساتھ کرے۔سو مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مقدمات بھی الیکشن کمیشن میں زیرسماعت ہیں ،پی ٹی آئی کی بوکھلاہٹ اور اس کیس سے راہ فرار کی کوشش اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی کوشش کی جا رہی ہے۔فارن فنڈنگ کیس کا کیا فیصلہ آتا ہے اس بارے کسی کو حتمی طورپرکچھ معلوم نہیں ہے لیکن فارن فنڈنگ کیس پر پی ٹی آئی کی تلملاہٹ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ دوسروں کو منی لانڈرنگ اور چور کے طعنے دینے والوں کے دامن اگر صاف ہوتے تو پھر فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کی راہ میں رکاوٹیں حائل نہ کی جا رہی ہوتیں۔