نماز کی کشش نے مجھے اسلام تک پہنچا دیا

جناب عبدالسلام ہینکن قبول اسلام سے پہلے ولیم ہینکن کہلاتے تھے۔ وہ اوائل جوانی ہی میں مراکش کے ایک بزرگ احمد انس کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ ان کے بقول مسیحیت کے عقائد ایک گورکھ دھندا ہے جب کہ اسلام کا عقیدہ سادہ‘ سچا اور فطرت کے مطابق ہے۔ اپریل 2005ء میں عبدالسلام صاحب لاہور آئے تو جناب انیس الرحمن نے ان کا ایک انٹرویولیا جو پیشِ خدمت ہے۔
سوال: آپ کو اسلام کی جانب کس چیز نے مائل کیا:
جواب: میرا نام عبدالسلام ہینکن ہے ۔ میں 1961ء میں برطانیہ کے ایک قصبے گرِمزبی میں ایک پروٹسٹنٹ عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا ۔ میرے والد ولیم ہینکن کا انتقال اس وقت ہوا جب میں ابھی عمر کے ابتدائی حصے میں تھا۔ ایک عیسائی گھرانے میںپیدا ہونے کے باوجود میں اپنے آبائی مذہب کے افکار سے مطمئن نہیں تھا کیونکہ جو سوالات میرے دماغ میں تھے‘ ان کے جواب مجھے تسلی بخش اور عقلی طور پر اپنے پروٹسٹنٹ عیسائی مذہب میں نہیں ملتے تھے‘ اس لیے میں نے ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لیے باقاعدگی سے ہر مذہب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مغرب میں حقیقتاً مذہب نہیں ہے‘ عیسائیت کے نام پر بت پرستی ہے یا مکمل طور پر لادینیت اور مادہ پرستی۔ ایسے ماحول میں انسان کے دماغ میں کئی قسم کے سوالات جنم لیتے ہیں جب کہ ایک پیدائشی مسلمان اس قسم کی صورتحال سے دوچار نہیں ہوتا۔
سوال: برطانیہ میں تو اسلامک سینٹرز ہیں‘ وہاں سے آپ کو رہنمائی نہیںملی؟
جواب: میرے قصبے ڈوور میں مسلمان نہیں تھے جب کہ لندن میں موجود اسلامک سینٹر میرے علم میں نہیں تھا۔
سوال: آپ نے کن مذاہب کا مطالعہ کیا؟
جواب: عیسائیت میں کیتھولک مسلک کا مطالعہ کیا۔ اس کے علاوہ یہودیت کا مطالعہ کیا جب کہ ہندوازم ‘ تائو ازم اور بدھ مت لٹریچر بھی پڑھا۔
سوال: اگر آپ یہودیت پرایمان لے آتے تو پھر بھی آپ یہودی مذہب اختیارنہیں کر سکتے تھے کیوںکہ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہودی ہونے کے لیے یہودی ماں کے بطن سے پیدا ہونا ضروری ہے۔ ایسی صورت میں آپ کیا کرتے؟
جواب: ایسا نہیں ہے۔ یہودیوں کے ہاں بھی بہت سے فرقے ہیں ‘ تاہم ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہودی دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جنہیں آرتھوڈکس یہودی کہا جاتا ہے ‘ یہ بہت بنیاد پرست قسم کے یہودی ہیں۔ وہ تو مجھے کسی صورت قبول نہیں کر سکتے تھے مگر ان کے علاوہ لبرل قسم کے یہودی بھی ہیں‘ اُن کے ہاں یہودی افکار پیدائشی طور پرغیر یہودی بھی اختیار کر سکتا ہے۔
سوال: یہودیت میں آپ کو کوئی کشش نظرآئی؟
جواب: بالکل نہیں۔ یہودیت میں بھی بے شمار چیزیں غیر منطقی ہیں‘ میں اس سے مطمئن نہ ہو سکا۔
سوال: مذہب کی جستجو کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں آپ کو شروع میں کیا معلومات حاصل ہوئیں۔
جواب: شروع میں اسلام کے بارے میں مجھے کوئی خاص معلومات میسر نہ آ سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا تعلق جس علاقے سے ہے وہاں مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ مغربی مستشرقین نے جس طرح تحقیق اسلام کے بارے میں کی ہے اُس سے انسان مسلمان ہونے کے بجائے اسلام سے دور چلا جاتا ہے۔ یہ تمام تحقیق زیادہ تر ایک مخصوص نقطۂ نظر کے تحت کی گئی ہے‘ اس لیے برطانیہ میں رہتے ہوئے مجھے اتفاقاً ایسا کوئی ادارہ یا کتابیں میسر نہ آ سکیں جو اسلام کے صحیح تعارف کا سبب بنتیں۔
سوال: اگر برطانیہ میں رہ کر اسلام کے بارے میں آپ کو صحیح تعارف میسر نہ آ سکا تو پھر کس طرح آپ کو اس دین کے بارے میں صحیح آگاہی ہوئی؟
جواب: میں انسان اور اس کی زندگی کا اصل مقصد جاننا چاہتا تھا۔ اس مقصد کی خاطر میں مذاہبِ عالم کا مطالعہ کرتا رہا اور اسی جستجو میں مجھے سفر بھی اختیار کرنا پڑا ۔ میں چار مغربی ممالک کے سفر کے بعد ایک مسلمان ملک مراکش جا پہنچا ۔ میرے اس سفر کا دورانیہ تقریباً ایک سال بنتا ہے۔ یہ جستجو مجھے مراکش کے شہر فاس میں لے آئی ۔ میں فاس کی تاریخی مسجد جامعہ قرویّین کے سامنے کھڑا تھا ‘ نماز کا وقت تھا ۔ میں نے مسلمانوں کو نماز ادا کرتے دیکھا تو میرا بھی دل چاہا کہ میں بھی اِن کی طرح یہ عبادت کروں۔ اسی اثناء میں نماز کا وقت ختم ہوا اور بہت سے لوگوں کے ساتھ ایک شخص مسجد سے باہر آیا ۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ کیا میں بھی اس طرح عبادت کر سکتاہوں؟ تو اُس نے جواب دیا کہ اس طرح عبادت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر اس سے پہلے آپ اس دین کے بارے میں تو کچھ جان لیں جس دین میں یہ طریقۂ عبادت ہے۔ مجھے اس کی بات معقول نظر آئی اور میں اس کے ایک دوست کے گھر گیا جہاں انہوں نے مجھے اسلام کے بارے میں بہت سی معلومات مہیا کیں۔ اس طرح مجھ میں اسلام کے بارے میں اور بہت کچھ جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ میں اُن سے اور دیگر علماء سے اسلام کے بارے میں بہت سوالات کرتا جن کامجھے تسلی بخش جواب دیا جاتا۔ یوں میں چار دنوں کے اندر مسلمان ہو گیا۔
سوال: اسلام کے بارے میں کس چیز نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا یا کس خاص بات کی وجہ سے آپ نے مسلمان ہونے کا ارادہ کیا؟
جواب: اس سلسلے میں میرا جواب شاید آپ کے لیے دلچسپ ہو۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا میں انسان اور اس کی زندگی کے حقیقت جاننا چاہتا تھا اور اِن سوالوں کے جواب مجھے کسی مذہب میں عقلی طور پر نہیں مل سکے۔ اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے اسلام لانے کا اصل سبب یہ ہے کہ مجھے انسان اور اُس کی زندگی کے اصل مقاصد کے متعلق سوالوں کے جو جواب دیے گئے وہ سارے کے سارے عقلی اور منطقی تھے۔ یہی ایک بات میرے اسلام لانے کا سبب بنی۔ اگر تمام چیزیں ٹھیک ہوتیں اور ان میں سے ایک بھی بات غیر منطقی ملتی تو شاید میں کبھی مسلمان نہ ہو سکتا مگر تلاش بسیار کے باوجود اسلام میں مجھے کوئی بات غیر منطقی نہ مل سکی جس پر میں قائل ہو گیا کہ یہی وہ دین ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔ یوں میں آج سے تقریباً بائیس برس قبل اسلام لے آیا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک میں اسلامی تعلیمات کا ایک طالب علم ہی ہوں اور اس عظیم دین کی حقانیت مجھ پر روز بروز کھلتی جا رہی ہے۔
سوال: اسلام کی جستجو میں آپ نے مراکش کے علاوہ کسی اور اسلامی ملک کا سفر کیا:
جواب : جی نہیں، ان دنوں میں نے صرف مراکش تک ہی سفر کیا تھا۔ کئی سال بعد میں نے مصراور ملائشیا وغیرہ کا سفر اختیار کیا۔
سوال: اسلام قبول کرنے کے بعد کس طرح کا ردِ عمل سامنے آیا؟
جواب: تمام گھر والے حیران تھے کہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی۔ مجھے یاد ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور میرے دوست مجھے کلب لے جانے کے لیے آئے تو اُس وقت انہیں پتا چلا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ اسلام لانے سے پہلے میں دوستوں کے ساتھ کلب جایا کرتا تھا‘ شراب نوشی کثرت سے کرتا تھا۔ اسی کام کے لیے میرے دوست مجھے لینے آئے مگر اس مرتبہ میں الحمدللہ روزے سے تھا۔
سوال: والدہ کی جانب سے کیا ردِ عمل سامنے آیا؟
جواب: حقیقت میں میری والدہ نے میرا بہت ساتھ دیا بلکہ جب میں انہیں اسلام کے بارے میں آگاہ کرتا تو وہ بہت غور سے میری بات سنتیں۔ ان کا اسلام کے بارے میں اپنا بھی مطالعہ تھا۔ چنانچہ 1997ء میں انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ ملائشیا گئیں کیونکہ میرے والد تو آسٹریلوی انگریز تھے مگر والدہ ڈچ یعنی ہالینڈ کی رہنے والی تھیں اور ہالینڈ کے باشندوں کا نوآبادیاتی دور سے انڈونیشیا اور ملائشیا سے قریبی تعلق ہے۔ میری والدہ اسلام قبول کرنے کے چند ماہ بعد ہی ملائشیا میں انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی آخری رسومات مکمل اسلامی طریقے سے ادا کی گئیں کیونکہ ان کا انتقال مسلم ملک میں ہوا تھا‘ اس لیے میں اسے ان کی خوش قسمتی ہی کہوں گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button