نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، عدنان کاکا خیل ۔۔۔ قسط اول

معروف مذہبی اسکالر مفتی سید عدنان کاکا خیل کا مفصل انٹرویو

سوال: وقت کے صدر اور آرمی چیف کے خلاف تقریر کر کے شہرت حاصل کرنے والے سید عدنان کاکا خیل کون ہیں، آبائی علاقہ اور خاندانی پس منظر کیا ہے؟

ج: میرے نام کے ساتھ جو لفظ کاکا خیل لگا ہوا ہے وہ کافی حد تک تعارف کروا دیتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں رہنے والوں کے لیے تو اس میں بالکل اجنبیت نہیں، لیکن میں باقی لوگوں کے لیے وضاحت کر دیتا ہوں، ہمارا خاندان حسینی سادات کا ایک خانوادہ ہے جو نوشہرہ سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے قصبے زیارت کاکا صاحب سے منسوب ہے۔ کاکا صاحب ایک بڑے مشہور ولی اللہ تھے جن کا نام تو سید قسطیر گل تھا لیکن خیبرپختونخوا کی روایات کے مطابق بزرگوں کے نام نہیں لیے جاتے بلکہ انہیں دیگر ناموں سے مخاطب کیا جاتا ہے، یہ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے کے اور ان کے ہم عصر اور تھوڑی سی معاصرت اُن کی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی تھی، اس دور کے بھی یہ ایک بزرگ تھے۔

ان کو لوگوں نے کاکا صاحب کہہ دیا، پشتو میں کاکا بزرگ دادا اور ان کے معاصرین کو کہا جاتا ہے، جب کہ پنجاب میں یہ بچے کو کہا جاتا ہے ۔ انہیں بہت شہرت حاصل ہوئی، ان کے والد حضرت بہادر کا خیبرپختونخوا کے اندر مشہور مزار ہے، وہاں تک پکی سڑک بھی نہیں جاتی لیکن لوگ جوق درجوق جاتے ہیں اور پانچ سو سال سے وہاں لنگر چل رہا ہے اور زائرین کی اقامت کا بندوبست ہے،  بستر ہے، چائے ہے، کھانا ہے۔ پانچ سو سال سے یہ سلسلہ چل رہا ہے، قوم اور اولاد اُن پرفخر کرتی ہے کہ یہ لنگر کی آگ کبھی ایک وقت بھی بجھی نہیں، ایسا وقت نہیں گزرا کہ کسی کو چائے کے وقت میں چائے نہ ملی ہو اورکسی کو کھانے کے وقت کھانا نہ ملا ہو، اور سینکڑوں زائرین بعض اوقات رات کا قیام بھی کرتے ہیں اور اُن کے لیے اس کا بندوبست بھی ہے۔ اُن کے والد جن کا نام سید نادر شاہ تھا، اُن کا اس سے بھی دور پہاڑوں کے اندر مزار ہے، وہاں تک پیدل راستہ ہے، پانچ ساڑھے پانچ سو سال سے اُس کا بھی لنگر چل رہا ہے، وہاں زائرین آتے ہیں اور قیام بھی کرتے ہیں، وہ اچھا خاصا دور افتادہ ہے۔ اُن کے جو والد تھے سید غالب بابا اُن کا مزار بھی وہاں خیرآباد میں موجود ہے ۔ اُن کے جو والد تھے اُن کا نام سید آدم بابا تھا اور کربوغہ شریف میں اُن کا مزار ہے۔

یہ تاریخ ہے اولیاء کی اور کتابوں میں اُن کا ذکر موجود ہے۔جو شہرت کاکا صاحب کو ملی وہ غیر معمولی تھی یوں اُن کی اولاد اپنے جدِ امجد کی طرف نسبت کر کے کاکا خیل کہلاتی ہے۔ میں تیرھویں پشت میں اُن کا پوتا بنتا ہوں۔ نوشہرہ کے پاس ہمارا قصبہ ہے، اس خطے یعنی خیبر پختونخوا میں ہماری آمد تقریباً ساڑھے پانچ سو برس پہلے ہوئی ہے۔ افغانستان کے خوست سے پہلے ہم وسطی ایشیاء کے ملکوں اور وسطی ایشیاء سے قبل عراق سے ہماری ہجرت ہوئی ہے اور وہیں سے ہم سید زین العابدین بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہیں۔ ظاہر ہے کہ اُن کی آمد مدینہ منورہ سے کربلا میں ہو گئی تھی، اُس کے بعد ان کا وہاں رہنا، اُن کی اولاد میں یہ واحد بچ گئے تھے، یہ وہ پوری کڑی ہے۔ کاکا صاحب کے بعد بھی ان کے بیٹوں میں جو سب سے زیادہ مشہور ہوئے وہ سب سے چھوٹے فرزند تھے، اُن کا مزار کاکا صاحب کے مزار سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے، وہ بڑے مشہور ہیں۔ صوبہ سرحد میں اُن کی خاص وجہ شہرت یہ ہے کہ لوگ جس کے اوپر جن آ جائیں اُس کو وہاں لے کر جاتے ہیں اور مزار کا جو کمرہ ہے جس کے اندر مزار ہے اُس کے اندر اس شخص کو بند کر دیتے ہیں اور کنڈی لگا دیتے ہیں۔

اس کے بعد دو چار منٹ کے بعد پھر اُسے نکالتے ہیں۔ آپ سارا دن یہ منظر دیکھیں گے کہ لوگ چیختے چلاتے مریض لاتے ہیں جن پر جنوں کے اثرات ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنے قدموں پر واپس جاتے ہیں۔ بعض اوقات چارپائیوں پر لائے جاتے ہیں، بعض اوقات چار پانچ بندے پکڑ کے لا رہے ہوتے ہیں، اُس کے بعد وہ آپ کو خود چلتا ہوا واپس نظر آئے گا۔ کوئی بھی وہاں جا کر بیٹھے تو یہ منظر اُسے دکھائی دے گا، وہ میرے دادا تھے، میرا جو اس وقت زیارت کاکا صاحب میں آبائی گھر ہے جو وراثت میں مجھے منتقل ہوا ہے اور جس کا کچھ حصہ میں نے اپنے چچاؤں سے خریدا ہے، وہ عین وہ گھر ہے جو ان کا تھا ۔ نام تو ان کا عبدالعلیم تھا، لوگ حلیم گل بابا کہتے تھے، خود کاکا صاحب ان کو صاحب فضل و دانش کہتے تھے کیونکہ بچوں میں سے یہ سب سے اچھے عالم تھے اور ہندوستان سے پڑھ کر آئے تھے۔ یہ بہت بڑے عالم بھی تھے اور عامل بھی۔ اگر آپ خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں چلے جائیں اور آپ کو ایسا مریض ملے کہ جس پر جن مسلط ہوں تو فوری طور پر اسے یہ مشورہ دیا جائے گا کہ اسے فوراً سے پہلے کاکا صاحب کے مزار پر لے جایا جائے ۔ اصل میں کاکا صاحب کے مزار پر نہیں بلکہ اُن کے اس بیٹے کے مزار پر لایا جاتا ہے جو اُن سے چند سو گز کے فاصل کے مدفون ہیں۔ یہ اُن کے چوتھے بیٹے تھے، ہم اُن کی اولاد میں ہیں اور اُن کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہمیں لوگ حلیمی بھی کہتے ہیں، ہم حلیم گل بابا کی اولاد ہیں تو یہ کاکا خیل صاحب کی حلیمی شاخ ہیں ۔ یہ ہمارا خاندانی پس منظر تھا۔ اس لحاظ سے ہمارے ہاں جو موروثی شغل تھا جس کو پیری مریدی کہہ سکتے ہیں، یعنی سارے لوگ پیدائشی طور پرپیر سمجھتے جاتے ہیں، صوبہ سرحد کے پشتونوں نے ہر دور میں سیدوں کا بہت احترام کیا یا غیر معمولی احترام کیا اور ان کا اہل رسول سمجھ کر کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہیں اور اس علاقے میں آئے ہیں، تو جب بھی آئے، حالانکہ پشتون سوسائٹی ایسی باریک گندیلی اور ایسی فیبریکیٹڈ ہے کہ عام طور پر اس کے اندر کسی اور کا ادخال بہت مشکل کام ہے، غیر پشتونوں کے لیے پشتونوں کے اندر جا کر ان کے نظام کا حصہ بن کر رہنا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا ہے اگر وہاں کی قبائلی معاشرت کو کوئی جانتا ہو تو وہ یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے۔

انہوں نے اگر راستہ دیا اور قبول کیا تو صرف سادات کو قبول کیا، اور اُن کو اپنے اندر نہ صرف یہ کہ شامل کیا بلکہ اُن کو اپنی بیٹیوں کے رشتے دیے اور اُن کو اپنا بڑا سمجھا۔ یہ عزت اور احترام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے تھا۔ پشتون معاشرے میں جنگ و جدل چونکہ بہت زیادہ ہوتا تھا، عام طور پر قبائلی جنگیں اور زمینوں پر لڑائیاں ہوتی تھی تو انہوں نے اس کا حل یہ نکالا، چونکہ سادات کا احترام تمام قبائل میں تھا۔ تو عام طور پرآپ دیکھیں گے کہ سادات کے یہ خانوادے کئی نسل و نسب سے تعلق رکھنے والے، حضرت پیر بابا کی اولاد اور خانوادے ہیں، یہ عام طور پر دو قوموں کے درمیان، دو قوموں کی زمینوں کی جو باؤنڈری ہوتی ہے، جہاں دو قوموں کی زمینیں ختم ہو رہی ہوتی ہیں وہاں یہ آباد ہوتے ہیں اور یہ اُن کے درمیان جھگڑے روکنے کے لیے، عا م طور پر اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ پنجابی میں جس کو ”بنا” کہتے دو زمینوں کے درمیان جس کو ایک بفرزون کہیں یا جو حد فاصل ہوتی ہے، جھگڑا اُسی پر ہوتا ہے ۔ ایک قوم دعویٰ کر دیتی ہے کہ میری زمین اتنے تک ہے، دوسری قوم کہتی ہے میری ادھر تک، جب وہ نجی ہو تو وہ چند فٹوں کا جھگڑا ہوتا ہے اور جب وہ دو قوموں کے درمیان ہو وہ بیسیوں کلومیٹر کا جھگڑا بھی ہو سکتا ہے، چونکہ قبائلی قوموں کی لمبی لمبی زمینیں ہوتی ہیں، پورے پہاڑ پر جھگڑا ہو سکتاہے کہ یہ کس کا ہے، اس طرف کا ہے یا اُس طرف کا ہے، اس کا حل یہ نکالا یہ اس پٹی پر جس پر جھگڑا بنتا ہے اس پر دونوں قومیں اپنے حصے سے دستبردار ہو کر سادات کو اس پر آباد کردیتی ہیں، یہ درمیان میں ہوں گے تو ان کے اوپر جنگ کیسے کریں گے، ان کے گھروں کے اوپر سے جنگ کیسے ہو گی؟

اُ ن کے گھروں اور ان کی خواتین کے پردے کا بہت احترام ہوتا تھا۔ اس زمین کو بھی مقدس سمجھا جاتا تھا کہ یہ زمین سید خانوادے کی ہے ۔ یہ زمینیں عام طور پر ہدیے میںدی گئیں اور دو قوموں کی پٹیوں پر دی گئیں۔ ویسے بھی قوموں نے بہت زمینیںدیں ۔ مثلاً اگر کسی کی ملکیت میں دس گاؤں ہیں تو ایک گاؤ ں کسی سید کو دے دیا تاکہ باقی میں برکت ہو جائے۔ تو یہ عمومی تصور وہاں پر تھا۔ اس بنیاد پر صوبہ سرحد میں سادات خانوادے وہ چاہے جہاں سے بھی آئے، زیادہ تر تو وسطی ایشیاء سے آئے، پچھلے چار پانچ چھ سات سو سالوں میں آئے اور صوبہ سرحد کی موجودہ مذہبیت میں ان سادات خاندانوں کا بہت بڑا اثر ہے۔ یہ اپنے ساتھ ایک تو عربی طور طریقے لے کر آئے چونکہ یہ عربی النسل تھے، دوسرا یہ مبلغین اور اولیاء کی شکل میں آئے ۔ ان کی آمد سے یہ جو صوبہ کے اوپر آج آپ کو ایک خاص قسم کا مذہبی اثر نظر آتا ہے، مؤرخین یہی کہتے ہیں کہ یہ ان عرب خاندانوں جن کی اکثریت سادات کی تھی، ان کی آمد اور ان کو پشتون قبائل کی جانب سے ایک مذہبی پیشوائی کیلئے ان کی بات مان لینا، ان کی تعلیمات ماننا یہ اس کے اثرات تھے۔ ہمارے خاندان میں یہ سلسلہ چلتا رہا ۔

یہاں تک کہ میرے دادا جو بہت زیادہ مشہور ہوئے جو مشہور ہوئے اسیر مالٹا عزیر گل کے نام سے، مولانا محمود الحسن صاحب کے خاص رفقاء میں سے تھے، وہ تعلیم کے لیے دیوبند چلے گئے، اپنے والد سے اجازت لیے بغیر گھر سے فرار ہو کر، کیونکہ والد اجازت نہیں دے رہے تھے، اُن کا خیال یہ تھا کہ خود آس پاس کے علاقوں میں اتنے علماء موجود ہیں اُن سے تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن انہوں نے اپنے ایک عزیز سے جو کہ دیوبند سے پڑھ کر آئے تھے اُن سے وہاں کے قصے سنے تو انہیں وہاں کا شوق ہوا، ابھی تقسیم نہیں ہوئی تھی اور اتنا زیادہ فاصلہ بھی نہیں بنتا تھا، موجودہ زمانے میں دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا سے کراچی کی نسبت دلی اور بھارت کے دیگر علاقے زیادہ قریب تھے، اس طرح یہ وہاں چلے گئے اور انہوں نے وہاں پڑھا اور اس پڑھنے کے زمانے میں شیخ الہند سے منسوب ہوئے، شیخ الہند سے ان کے منسوب ہونے کا قصہ بہت زیادہ دلچسپ ہے، اور پشتو زبان اس کی وجہ بنی ۔ اس علاقے کے ایک بہت مشہور اور جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے کردار تھے، حضرت مولانا نجم الدین صاحب جن کو پشتو روایات کے مطابق ہڈے بابا جی کہا جاتا ہے ۔ ہڈہ ایک جگہ ہے  جلال آباد کے قریب یعنی صوبہ ننگرہار کے قریب، یہ جو ہڈے بابا جی تھے خلیفہ تھے۔

نجم الدین صاحب کا نام تو کوئی نہیں جانتا لیکن ہڈے بابا جی کے نام سے مشہور ہیں، یہ یہاں انگریزوں کے خلاف ایک جدوجہد کر رہے تھے، بہت سارے قبائل کے اندر جہاں انگریز نہیں جا سکا اور قبائل کی آزاد حیثیت رہی، یہ ان کی وجہ سے رہی۔ ان کو پتا چلا کہ شیخ الہند محمود الحسن صاحب بھی یہ کام کر رہے ہیں اور اس کے لیے ان کی تحریک خلافت، تحریک ریشمی رومال اور یہ ساری چیزیں ہو رہی ہیں تو انہوں نے ادھر ننگرہار سے دیوبند ہندوستان میں اپنے دو خلفاء بھیجے۔ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو مشورہ یہ دیا کہ ہم نے یہاں انگریزوں کے

خلاف بہت بڑا کام کیا ہوا ہے، مجاہدین تیار ہیں اور علاقہ بھی آزاد ہے، انگریزوں کا عمل دخل نہیں ہے، آپ بالکل انگریز عمل داری کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں اور یہاں سے بیٹھ کر آپ کے لیے نتائج حاصل کرنا مشکل ہو گا، اب آپ ہماری طرف آجائیں۔ یہ دونوں لوگ جب دیوبند میں پہنچے تو ان کو اردو نہیں آتی تھی کیونکہ پشتون تھے، تو انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا بندہ مل جائے جو ہماری شیخ الہند کے ساتھ ترجمانی کر لے۔ تو عجیب اتفاق یہ تھا کہ مولانا عزیز گل صاحب جو اس وقت سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا اور طالب علم تھا بالکل ابتدائی درجات کا، تو کسی نے کہہ دیا کہ یہ پٹھان لڑکا ہے اور اس علاقے سے آیا ہوا ہے اور یہ آپ کی ترجمانی کرے گا، انہوں نے یہاں اردو بھی سیکھ لی تھی، یہ چلے گئے اور جا کر شیخ الہند سے کہا کہ اس طرح میرے علاقے سے دو بندے آئے ہوئے ہیں، کسی بزرگ کے خلیفہ ہیں اور آپ سے ملنے آئے ہیں اور کوئی اہم پیغام ہے۔

شیخ الہند انگریزوں کے سی آئی ڈی ے نظام کی وجہ سے تھوڑی احتیاط بھی کرتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ مدرسہ پر ملنے سے بہتر ہے کہ میں گھر پرملوں، توانہوں نے کہا کہ آپ ان دونوں مہمانوں کو رات کے کھانے کے پر میرے پاس لے آئیں، میرے پاس کھانا بھی کھا لیں گے اور میں ان سے بات بھی کر لوں گا، مولاناعزیز گل صاحب جب جانے لگے تو شیخ الہند نے کہا کہ آپ بھی ساتھ آ جائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ فرض کریں کہ میں نہیں آؤں گا تو آپ ان سے بات کیسے کریں گے، مجھے یہ بلانا کوئی آپ کا احسان نہیں بلکہ آپ کی ضرورت ہے کیونکہ میں ہی ان کا ترجمان ہوں ۔ شیخ الہند کو یہ بے باکانہ انداز بہت بھایا، ان کا مزاج ایسا تھا کہ ان کو حریت، آزادی اور بہادری بہت زیادہ پسند تھی کیونکہ طلبہ عام طور پر اساتذہ کے سامنے ذرا دبے ہوئے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہیں سے انہوںنے طے کر لیا کہ اس کو اپنے ساتھ منسلک رکھنا ہے اور پھر یہ پڑھتے بھی رہے، فارغ بھی ہوئے، دورۂ حدیث کیا اور ان کے ساتھ منسلک ہو گئے، اور ان کے ساتھ ایک لمبی تاریخ ہے، مالٹا میں قید بھی ہوئے اور ان پانچ اسیرانِ مالٹا میں سے ایک ہوئے۔

بنوری ٹاؤن میں پہلی بخاری شریف مولانا نافع گل صاحب نے پڑھائی، پہلے اور دوسرے سال بھی، اس وقت وفاق المدارس کے جو صدر عبدالرزاق سکندر صاحب ہیں، انہوں نے 1957ء میں بخاری شریف نافع گل صاحب سے پڑھی ہے، وہ میرے دادا تھے۔ میرے والد صاحب ان کا نام مولانا عبداللہ کاکا خیل تھا وہ بنوری ٹاؤن سے فارغ ہوئے اور انہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے پڑھا اور پھر انہوں نے بنوری ٹاؤن میں پڑھایا اور پھر افریقہ کے ایک ملک نائیجیریا میں دس سال پڑھایا۔ میری ابتدائی تعلیم پرائمری تک وہیں پر ہوئی، میں پیدا تو پاکستان میں ہوا لیکن میں ایک مہینے کا تھا کہ ہم نائیجریا چلے گئے ۔ پھر دس سال تک ہم وہاں پر رہے۔ دس سال تک کی جو ابتدائی تعلیم ہوتی ہے وہ میری نائیجیریا کی ہے۔ پھر میرے والد صاحب اسلامی یونیورسٹی میں آ گئے، وہ اسلامی یونیورسٹی میں بڑے مشہور اساتذہ میں تھے، چار مضامین میں پی ایچ ڈی کراتے تھے، اور واحد استاد تھے جو تفسیر، فقہ، حدیث اور عقیدہ علم الکلام، ان چار موضوعات پر ان کے طلباء ان کے پاس پی ایچ ڈی کرتے تھے۔

کلاس سکستھ میں، میں اسلام آباد آ کر آئی نائن فور میں ماڈل سکول سے میں نے میٹرک کیا۔ میٹرک کے بعد میں نے پری میڈیکل میں اسلام آباد ہی سے ایف ایس سی کی۔ ایف ایس سی کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھ جانا ہوا، وہاں سے واپس آنے کے بعد ذہن دینی تعلیم کی طرف چلا گیا۔ پھر میں نے والدہ اور والد کی خواہش پر قرآن حفظ کیا، اس کے بعد دینی تعلیم شروع ہوئی اور دینی تعلیم کے دوران ہی ساتھ ساتھ میں نے پشاور یونیورسٹی سے گریجویشن کر لی اور جیسے ہی دینی تعلیم سے میں فارغ ہوا،کراچی یونیورسٹی سے میں نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کر لیا۔ پھر میں نے تخصص کیا، تخصص فقہ اور اقتصاد اسلامی کے اندر، اس کے بعد میں نے ایل ایل بی کیا، پھر میں نے کراچی جامعۃ الرشید میں پڑھانا شروع کر دیا۔ وہیں پر میں نے ایم اے پولیٹیکل سائنس کے بعد ایل ایل بی مکمل کیا اور ساتھ ساتھ تدریس چلتی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اسلامک سٹڈیز میں ایم فل کیا اور ابھی بھی پی ایچ ڈی کی سڈیز کاسلسلہ چل رہا ہے۔ اس دوران ساتھ ساتھ تدریس اور فتویٰ جاری رکھا، 2005ء میں بنوری ٹاؤن سے فراغت کے بعد گزشتہ 14سال اس دوران میری تدریس اور فتویٰ کے ساتھ وابستگی رہی الحمدللہ۔ (جاری ہے)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button