غربت خاتمے کے تین اصول (انٹرویو شعیب سلطان خان)
غریب منظم ہو جائیں، پیسہ بچانے کی عادت ڈالیں، صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر مائیکروفنانس انوسٹمنٹ کے ذریعے غربت کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کریں
نصف صدی تک دیہی ترقی اور غربت کے خاتمے کیلئے کام کرنے والے شعیب سلطان خان کی خصوصی گفتگو
جنوبی ایشیاء میں 20 کروڑ سے زائد آبادی کو غربت سے نکالنے اور دیہی ترقی کی خدمات پر شعیب سلطان خان کو سماجی سائنسدان کہا جاتا ہے، نہ صرف پاکستان میں بلکہ ان کی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا، وزیراعظم پاکستان عمران خان سے لے کرماضی کی تمام حکومتیں ان کی خدمات کی معترف رہی ہیں، پشاور داؤدزئی سے آغاز کرنے کے بعد جنوبی ایشیاء میں جا کر شعیب سلطان خان نے عوام کے نظریات بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان کا نظریہ ہے کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے جنوبی ایشیاء میں سماجی ترقی کے منصوبوں میں لوگوں کو شامل کر کے انہیں ترقی سے ہمکنار کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ان کا کہنا ہے کہ لوگ اپنی مدد خود کرنے کا بھرپور جذبہ رکھتے ہیں اور ہمیں صرف اس چیز ضرورت کی ہے کہ انہیں منظم ہونے میں مدد فراہم کریں۔کسی نہ کسی کو ان کی رہنمائی اور ان میں صلاحیت پیدا کرنے میں مدد کرنا ہوگی۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ لوگ خود کیا کرنا چاہتے ہیں اور آیا وہ ممکن بھی ہے کہ نہیں اور اس کام کے لیے وسائل کی دستیابی کس قدر ہے۔ بیشتر کیسز میں تو وہ لوگ امداد بھی نہیں مانگ رہے ہوتے، وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں، انہیں صرف اور صرف ایک تھپکی درکار ہوتی ہے۔شعیب سلطان خان کے ساتھ ہونے والی قیمتی گفتگو نذر قارئین ہے۔
شعیب سلطان خان، اختر حمید خان سے متاثر ہو کر دیہی آبادی کی ترقی اور غربت کے خاتمے کی طرف متوجہ ہوئے ، انہوں نے اختر حمید خان سے پوچھا کہ میں کیاکروں؟تو جواب ملا کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں دنیا کے غریب ممالک کیسے غربت کی دلدل سے باہر نکلے؟ جو ملک غریب تھے وہ آج امیر کیسے ہو گئے؟ اختر حمید خان بطور مثال ایک شخصیت کا ذکر کرتے تھے کہ 1859ء میں رائے فائرز جو جرمنی میں Prosperityکا میئر تھا ، وہ غریبوں کی مدد کرتا تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ تم پر تین جنات سوار ہیں ۔
(۱)۔ لینڈ لارڈ
(۲)۔ منی لانڈر
(۳)۔ شاپ کیپر
رائے فائزر کا کہنا تھا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ تنہا ان کا مقابلہ کرو گے تو یہ بہت مشکل ہے ، اس مقصد کیلئے تمہیں تین کام اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔
(۱) اگر تم منظم ہو جائو ، اپنے میں سے ایک ایسا شخص پیدا کرو جو ایماندار بھی ہو اور مخلص بھی ہو جو اپنے لیے بھی کرے اور تم سب کے لیے بھی کرے تو اس صورت میں تم کچھ کر سکتے ہو۔
(۲)۔ غربت کے خاتمے کیلئے رائے فائزر نے دوسرا اصول یہ بتایا کہ چونکہ Capital is Power ہے یعنی پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے تو پیسہ بچانے کی عادت ڈالو، اگر ایک پیسہ بچا سکتے ہو تو وہ بھی بچائو۔
(۳)۔ رائے فائرز نے غربت کے خاتمے کا تیسرا اصول یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو انسان کے اندر ایک صلاحیت بھی پیدا کی، کیونکہ اس صلاحیت کے بغیر زندہ رہنا بھی محال ہے۔ اس صلاحیت سے کیا کر سکتے ہو،اور اس صلاحیت کی راہ میں وہ کیا رکاوٹ ہے کہ اگر اسے ہٹا دیا جائے تو تم آگے بڑھ سکتے ہو۔ اس کو ہم مائیکرو انوسٹمنٹ پلان کہتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ غربت گھر گھر ہے اور جب تک ہرگھر اس کے خاتمے میں شامل نہ ہو اسے ختم کرنا آسان نہیں ہے۔
شعیب سلطان خان نے عملی طور پر غریب طبقات کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ وہ اختر حمید خان سے بھی ایک قدم آگے چلے گئے کہ انہوں نے ان کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کا بھی عملی نمونہ پیش کر دیا۔ انہو ں نے یہ قومی اور بین الاقوامی مالی امداد کے ساتھ اس پیمانے پر کیا جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ شعیب سلطان خان کا یہ ماننا ہے کہ ہمیں ایک عملی، مؤثر اور بہترپالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے لوگوں کی تعلیم و تربیت یقینی بنا سکیں۔ غیر واضح پالیسیوں سے کبھی بھی ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ شعیب سلطان خان اور ان کے ساتھی ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے خواہاں ہیں جہاں غربت میں کمی اور دیر پا ذرائع روزگار کی دستیابی ممکن ہو سکے۔ وہ کمیونٹیز کو متحرک کرنے کا سماجی سرمایہ تخلیق کرنا چاہتے ہیں تاکہ غربت کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ شعیب سلطان خان متحرک کمیونٹیز کو پسند کرتے ہیں اور آگہی پھیلانے کے ساتھ ساتھ ان کی آواز بنتے ہیں۔ وہ انہیں اپنی سماجی اور سیاسی ڈھانچوں میں بہتری لانے اور مؤثر خدمات کے چناؤ کے لیے اعتماد دیتے ہیں۔ وہ تبدیلی کے لیے پر جوش ہیں مگر سمجھتے ہیں کہ تبدیلی صرف اسی وقت دیر پا ثابت ہو سکتی ہے جب معاشرے کے سبھی طبقات اس میں بطور فریق شریک ہوں۔
داؤد زئی ماڈل کیا تھا اور اسے عالمی پذیرائی کیوں ملی؟ پاکستان کا زیادہ رقبہ دیہات پر مشتمل ہے، جہاں تقریبا75 ملین آبادی45 ہزار سے زیادہ دیہات میں رہتی ہے، دیہاتی آبادیوں کیلئے1972 میں حکومت نے رورل ڈویلپمنٹ پروگرام ترتیب دیا تھا جس کا بنیادی مقصد دیہی آبادیوں میں غربت میں کمی تھا، جس کے تحت مختلف پائلٹ پروجیکٹ بنائے جانے تھے۔
اس سلسلے میں پشاور میں پاکستان اکیڈمی آف رورل ڈویلپمنٹ بنائی گئی جہاں (آئی آر ڈی پی) کے تحت ریسرچرز کو تربیت دی جاتی تھی، ریسرچرز نے مخصوص ایریاز کو منتخب کیا جہاں مجوزہ پروگرام کے تحت مختلف پائلٹ پروجیکٹ ترتیب دیئے جا سکیں ، ریسرچرز نے پائلٹ پروجیکٹ کیلئے ٹھٹھہ کے علاوہ خیبر پختونخوا میں دائود زئی کے علاقے کا انتخاب کیا دائود زئی پولیس اسٹیشن کو مرکز بنایا گیا، 89دیہات کا ڈیٹا اکھٹا کیا گیا۔
ان دیہات میں 1972 کی مردم شماری کے مطابق 96196 لوگ آباد تھے جبکہ اتنی آبادی کیلئے سب ڈویژن میں 6پولیس اسٹیشن تھے، اس پائلٹ پروجیکٹ کا اولین مقصد دیہی علاقوں میں موجود پولیس اسٹیشنز کو ڈویلپمنٹ پروگرام سنٹرز کے طور پر بھی استعمال کیا جانا تھا، اس سارے منصوبے کے روح رواں شعیب سلطان خان تھے جو پاکستان رورل ڈویلپمنٹ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے، ابتدا میں یہ معلوم ہوا کہ دوئود زئی کے علاقے میں ماسوائے زرعی ڈیپارٹمنٹ کے کوئی اور ڈیپارٹمنٹ گراس روٹ لیول پر1947 سے تب تک نہیں بنایا گیا تھا ، حالانکہ دائودزئی کے علاقے کا34000 ایکڑ رقبہ فصلوں کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا جو کہ 19ہزار کسانوں کی ملکیت تھی۔
دائودزئی پولیس اسٹیشن جس کو(آئی آر ڈی پی) کے تحت مرکز کا درجہ دیا گیا وہاں ریسرچ سنٹر کے سامنے بیسیوں معاملات سامنے آئے ، دیہی علاقوں کی ترقی کیلئے بنائے گئے اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان تھا، 39 ہزار ایکڑ زرعی زمین پر پیداوار کرنے والے کسانوں کو پانی کی کمی، کھاد اور زرعی ادویات کی عدم فراہمی، زمینی کٹائو، پورے علاقے میں سکولوں کا نہ ہونا، زمینی ملکیت کے جھگڑوں کے مسائل سمیت کئی انگنت مسائل نظر آئے،اور پورے علاقے میں زرعی ڈویلپمنٹ ادارے کے 8نمائندے تھے جو ان مسائل کو حل کرنے سے قاصر تھے۔
ان مسائل کے حل کیلئے دو ورک یونٹ بنائے گئے، ایک یونٹ کا کام دیہات کو منظم کرنا اور دوسرے یونٹ کا کام ٹیکنیکل سپورٹ کی فراہمی تھا، انجینئرز نے ان مسائل کے حل بالخصوص فلڈ کنٹرول کے لئے 15 منصوبے ترتیب دیے، آبپاشی کے لئے27 ملین روپے سے 16675 ایکڑ رقبے کو سیراب کئے جانا تھا اور ہر ایکڑ پر صرف 162 روپے کے اخراجات اٹھتے تھے جس سے 105 دیہات کے 91369 افراد کو فائدہ پہنچنا تھا، 97 دیہات میں آمدورفت کے لئے سڑکیں بنانے کے لئے 3 ملین روپے کے اخراجات تجویز کئے گئے، چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں افراد کے چھوٹے چھوٹے گروپس بنائے گئے، ان کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ حکومت ان کے مسائل کے حل کے لئے ان کی تجاویز کو قابل عمل بنائے گی۔
اس پروجیکٹ کے تحت 80 دیہات میں 2715 افراد کی ممبر شپ کی گئی، ویلج آرگنائزیشن ترتیب دی گئی، انہیں تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرنے کا بولا گیا تا کہ وہ دیہی ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں حکومت کے شراکت دار بن سکیں ، انہوں نے 150426 روپے جمع کئے، انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ ترقیاتی منصوبے حکومت اور ان افراد کے درمیان پارٹنر شپ کے تحت بنائے جائیں گے، ویلیج آرگنائیزیشن کے ہفتہ وار اجلاسوں میں غلطیوں کی نشاندہی کی گئی، اس کے بعد دائود زئی علاقے میں مختلف بینکوں نے اپنی برانچز کھولیں جس میں زرعی ترقیاتی بینک کی برانچ بھی شامل تھی، نومبر 1973 میں ویلج آرگنائزیشن کو88 ہزار روپے کا قرض دیا گیا۔
مرکزی بینک نے دیہات کی ترقی کیلئے منصوبوں کیلئے فنڈز کی منظوری دی، دائود زئی کے علاقے میں دو ڈسپنسریاں کھولی گئیں ، چین کے (بیئر فٹ ڈاکٹرز) پروگرام کی پیروی کرتے ہوئے امام مسجد کو بنیادی طبی امداد کی فراہمی کی تربیت دینے کا منصوبہ تجویز کیا گیا تا کہ دیہات کے باسیوں کو پیش امام ہنگامی صورت میں جب ڈاکٹر دستیاب نہ ہوں تو فوری طور پر ہنگامی طبی امداد دے سکے، خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا، (مرکز) میں آبادی کو ہنر مند بنانے پر توجہ دینے کیلئے پروگرام ترتیب دیے گئے، دائود زئی پروجیکٹ (مرکز )کے تحت صوبائی حکومت کو تجویز کیا گیا کہ لوکل بلدیات کا نمائندہ مرکز کے تحت مختلف ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ہم آہنگی کے لئے منیجر کے طور پر خدمات سر انجام دے گا، تاہم بلدیات کے اداروں نے ان اقدامات کو اپنے اختیارات کیلئے خطرہ سمجھا،10 فیصد ویلج آرگنائزیشنز نے ماہانہ اجلاسوں میں شرکت کو اپنے اختیارات میں کمی سے تعبیر کیا، اور عملاً اس سے علیحدہ ہو گئے، ترتیب دیئے گئے ان میں سے ایک منصوبہ ہائیڈرو الیکٹرک توانائی کے لئے گوبر کو کار آمد بنانے کا بھی تھا، اس دائود زئی پروجیکٹ کا بنیادی مقصد اپنی مدد آپ کے تحت دیہاتوں میں ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانہ تھا جس میں حکومت کی سرپرستی بھی شامل تھی۔