ٹیکنو فیوڈلزم: سرمایہ دارانہ تکنیکی جاگیرداری
ٹیکنو فیوڈلزم ایک اصطلاح ہے جو حالیہ دنوں میں بین الاقوامی اقتصادی منڈیوں میں اک نئی مباحث کا آغاز بننے جارہی ہے، پاکستان میں اس کا تصور ابھی ناپید ہے۔ یہ آج کے عہد کی عصری سرمایہ دارانہ نظام جسے آپ نیو لبرل نظام کہہ سکتے ہیں، اس تصور کو کسی حد تک مزید معدومیت کی طرف لے جا رہی ہے، یا کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ایک نئی جدت لارہی ہے، مزے کی بات ہے کہ نیو لبرل ازم کے ناپید ہونے کے آثار ان کلاسک چکراتی بحرانوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے اپنے آغاز سے ہی سرمایہ داری کی خصوصیات طے کی تھیں۔
تکنیکی جاگیرداری کے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ سرمائے نے ایک عروج کا مشاہدہ کیا جس میں اسے Cloud Capital (کلاؤڈ کیپٹل) کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، اور یہ کلاؤڈ کمپیوٹنگ Cloud Computing کا حوالہ ہے، جو ڈیجیٹل دنیا Digital World میں سب سے عام سرگرمی بن گئی ہے۔ اس Cloud Money (کلاؤڈ سرمائے) نے کلاسیکی (جسے آپ روایتی کہہ لیں) اور نیو لبرل سرمایہ داری کے دو بنیادی ستونوں یعنی منڈی اور منافع کو نقصان پہنچایا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تکنیکی جاگیرداری کو اب منڈیوں اور منافع کی کوئی پرواہ نہیں ہے، بلکہ اصل میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جو کچھ ہوا وہ یہ ہے کہ ہماری دنیا کے معاشی اور سماجی نظام کے مرکز میں مارکیٹیں اور منافع اپنی جگہ سے گر گئے اور انہیں جان بوجھ کر مارجن کی طرف دھکیل دیا گیا۔ پھر انہیں ان طریقوں سے تبدیل کیا گیا جیسے مارکیٹوں کی جگہ تجارتی پلیٹ فارمز نے لے لی۔ جنہوں آپ ڈیجیٹل مارکیٹس کہہ لیں، جو پہلی نظر میں رواتی بازار نظر آتے ہیں، مگر وہ اصلا نہیں ہیں، بلکہ وہ بازار سے زیادہ ایک جاگیر کی طرح ہیں، اور جہاں تک منافع کا تعلق ہے، ان کی جگہ Feudal equivalents (جاگیردارنہ مساوی) نے لے لی، جو کہ کرایہ ہے (جو ان پلیٹ فارمز پر آپ کے ڈیجیٹل سامان کی قیمت ہے)۔
یونان کے سابق وزیر خزانہ اور ایتھنز یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر یانس وروفاکیس ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ٹیکنو فیوڈلزم پر کافی کام کیا ہے، "Yanis Varoufakis” یانس وروفاکیس کا کہنا ہے کہ "سرمایہ داری نے خود کو جس نئی شکل میں ڈھال لیا ہے اسے میں ٹیکنو فیوڈلزم کہتا ہوں۔
تکنیکی جاگیرداری یہ چند ہاتھوں یا FAANG کمپنیوں کے تحت ڈیٹا کا کنٹرول ہے جو مختلف حکومتوں کے مطابق خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں سماجی عدم مساوات میں یہ دنیا پر کیا اثر پذیری کرنے جا رہا ہے۔ بین الاقوامی اقتصادیات میں "FAANG” ایک مخفف ہے جو پانچ ممتاز امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اسٹاک کی نشاندہی کرتا ہے، جن میں Facebook، Amazon، Apple، Netflix، اور Alphabet (GOOG) (پہلے گوگل کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ اصطلاح جم کریمر جو CNBC کے Mad Money کے ٹیلی ویژن میزبان ہیں۔ انہوں نے وضع کی تھی۔ ابتداء میں سنہ 1917 میں FANG کی اصطلاح استعمال ہوئی، اس کے بعد Apple کی مارکیٹ میں بڑھتے غلبے نے اس میں ایک A کا مزید اضافہ کردیا، یہ FAANG اس میں اب Tesla کو بھی شامل کرتی ہے، جو ماضی کی آئل سسٹرز کمپنیوں کو بھولی بسری یادوں میں لے جائے گی۔ آج یہ کمپنیاں عالمی منڈیوں میں مکمل طور پر غالب ہیں۔
حال ہی میں آسٹریلیا نے ایک قانون پاس ہوا ہے جس میں گوگل اور فیس بک کو نیوز میڈیا بارگیننگ کوڈ قانون کے تحت خبروں کی اشاعتوں کو ادائیگی کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ فیس بک، ایپل، نیٹ فلکس وغیرہ کو حال ہی میں کئی ممالک کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ امریکہ میں، محکمہ انصاف نے عدم اعتماد کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اجارہ دار گوگل پر مقدمہ کیا ہے۔ محکمہ نے سرچ اینڈ سرچ ایڈورٹائزنگ مارکیٹوں میں مقابلہ بحال کرنے کے لیے گوگل کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان نے حال ہی میں سمارٹ ٹی وی مارکیٹ کے بارے میں گوگل کے خلاف عدم اعتماد کی تحقیقات کی ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال دیکھ لیں کہ آج پاکستان میں ہی ہر شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ فون اور اس کے پاس سوشل میڈیا جیسے فیسبک ہے، مگر ہم اکثر اپنی جائز بات بھی لکھ نہیں سکتے کیونکہ فیسبک ہم پر اپنی مرضی اپنی مرضی کے آزادی حقوق کے قوانین زبردستی لاگو کرتا ہے۔
ٹیکنو فیوڈلزم کو ماضی کی جاگیردارنہ نظام اور سرمایہ دارانہ کے ساتھ کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں کیا ہورہا ہے اور ماضی سے اس کو مثالی دنیا میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ماضی میں طاقت کا ارتکاز ان حلقوں کے پاس رہتا تھا۔
قرون وسطیٰ کی بادشاہت
جس میں ایک بادشاہ اور ایک پوپ ہوتا تھا جو حکومت بناتے تھے۔ (یہ مثال مغربی معاشرے کی سمجھ سکتے ہیں اسی کو آپ کسی بھی مذہبی ریاست سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
قرون وسطی کا جاگیرداری
اسی کے متوازن بعد میں ایک قرون وسطی کا جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔ بادشاہ تمام زمین کا مالک ہوتا تھا لیکن جاگیردار اس کے کچھ حصوں پر حکومت کرتے تھے۔ بادشاہ اپنی پسند کے مطابق مختلف لوگوں کو شہری اور فوجی اختیارات عطا کرتے تھے۔ اس طرح اس وقت طاقت کے کئی مراکز ہوتے تھے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ مغرب خصوصا یورپ و امریکا وغیرہ میں بھی ہندوستان کی طرح 552 شاہی ریاستیں تھیں، جو اپنی بہترین جاگیرداری رکھتی تھیں۔ جاگیرداری نے انسانوں میں عدم مساوات کو جنم دیا تھا، کیونکہ اس میں درجہ بندی اور ٹیکس میں چھوٹ تھی۔
صنعت کاری اور سرمایہ داری
یہ وہ دور تھا جس کا آغاز سترہویں صدی سے ہوتا ہے، اس وقت آزادی، بھائی چارے اور مواقع کی مساوات پر بات کی گئی۔ یہ قانون کی حکمرانی کا دور تھا۔ اسی نے بعد ازاں آج کے نئے سرمادارنہ نظام نیو لبرل ازم تک سفر کیا ہے۔
ٹیکنو فیوڈلزم
لیکن آج ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس آزادی، مساوات وغیرہ تو ہیں، لیکن طاقت چند بڑی کمپنیوں یا FAANG کمپنیوں کے اندر مرکوز ہے۔ ان کمپنیوں نے مختلف ممالک میں جاگیردارانہ معاشرہ بنا رکھا ہے اور اس طرح ان میں ہمت ہے کہ وہ ان ممالک کے قوانین کی نافرمانی کریں جہاں وہ کام کرتے ہیں۔
ٹیکنو فیوڈلزم کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟
آج مختلف بڑی کمپنیاں ٹیکنو فیوڈلزم پر عمل پیرا ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں تین بنیادی باتیں ہیں، یہ تین پیرامیٹرز ہیں جو ثیکنو جاگیرداری کی تعریف کرتے ہیں
مکمل کمپیوٹنگ پاور
چند نجی ہاتھوں میں اقتصادی طاقت کا بے انتہا ارتکاز
معاشرے کی تشکیل کے لیے ٹیکنو اشرافیہ کی صلاحیت
ٹیکنو فیوڈلزم اور پرانی جاگیرداری میں کئی مماثلتیں موجود ہیں، اور ٹیکنو فیوڈلزم کئی طریقوں سے ٹیکنو فیوڈلزم سے ملتا جلتا ہے، جیسے پرانی جاگیرداری زمینوں کے کنٹرول پر ٹکی ہوئی تھی، اسی طرح ٹیکنو فیوڈلزم ڈیجیٹل رئیل اسٹیٹ پر کنٹرول کرتا ہے۔ پرانے جاگیردار طبقے کو مراعات اور استثنیٰ حاصل تھا جبکہ ٹیکنو فیوڈلزم ڈیٹا لوکلائزیشن اور ٹیکس کی تعمیل کو نظرانداز کرنے جیسی مراعات اور چھوٹ تلاش کرتا ہے۔ پرانے جاگیرداری نے پیدائشی حقوق دیے، جس کی وجہ سے عدم مساوات پیدا ہوئی اور اسی طرح ٹیکنو فیوڈلزم میرٹوکیسی کی تبلیغ کرتا ہے لیکن یہ ٹیک اشرافیہ کی چوٹی کو برقرار رکھتا ہے۔ چھوٹی بکھری جاگیریں پرانی جاگیرداری کا معیار تھیں، جبکہ ٹیکنو فیوڈلزم خود کو ریاست کے خلاف آزادی کو برقرار رکھنے کے طور پر پوزیشن میں رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے فیس بک نے انسٹاگرام، واٹس ایپ پر قبضہ کر لیا ہے کیونکہ انہیں لگا کہ وہ ایک دن انہیں پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔
جیسے پرانی جاگیرداری نے قانون کو پامال کیا، ٹیکنو فیوڈلزم بھی ایسا ہی کرے گا۔ اس سے حکومت کی مختلف شاخوں میں بدعنوانی پھیلے گی، کیونکہ آج یہ کمپنیاں ایسا دیو بن چکی ہیں، کہ یہ ملکوں کی سیاست سے بھی کھیلتی ہیں۔ مثلاً ریاستہائے متحدہ امریکہ میں فیس بک کی لابنگ سب کو یاد ہی ہوگی۔ پرانے جاگیردار طبقے کی طرح، نئی تکنیکی اشرافیہ مسلسل جنگ میں مصروف ہے۔ وہ مزید ڈیجیٹل رئیل اسٹیٹ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت "AI” جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز پر اس کے کنٹرول کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ بڑی ٹیک کمپنیاں ماضی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کام کرتی ہیں، جو اجارہ داری استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ اور وہ کمپنیاں خود مختار بن کر ٹیکس قوانین کی بھی نافرمانی کرتی ہیں۔ ٹیک اشرافیہ معاشرے کو نئی شکل دے سکتے ہیں۔ یہ چند لوگ عوامی اتفاق رائے کا فیصلہ کرنے اور دوسرے عوام کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نئی اشرافیہ بہت طاقتور ہے یا اس نے خود کو ایسا بنا لیا ہے جس نے ایک طرح سے ملکوں کے لیے اب انہیں سنبھالنا مشکل بنا دیا ہے۔ یہ ملک کی مقامی سیاست میں مداخلت کرنے اور سیاسی گفتگو میں ہیرا پھیری کرنے کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ ڈیٹا پر ان کا کافی کنٹرول ہے۔ یہ کمپنیاں اخبارات، رسائل، OTT پلیٹ فارمز وغیرہ پر کنٹرول رکھتی ہیں، اور عوام میں انارکیسٹ خیالات کو فروغ دیتی ہیں۔ مزید مزے کی بات ہے کہ بیک وقت یہ کمپنیاں آزادی اظہار کے انتہائی ورژن سے بھی لطف اندوز ہوتی ہیں جن پر قابو نہ پایا گیا تو دنیا میں سیاسی تباہی پھیل سکتی ہے۔ جدید دنیا میں تو شائد اب وقت آگیا ہے کہ تکنیکی تبدیلی اور ان چیزوں پر بحث شروع ہوچکی جن کو روکنے اور اس میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ میں بھی یہ سب عرب میڈیا میں پڑھ اور سن رہا ہوں، مغرب میں بھی اس پر کام ہورہا ہے۔
یونانی پروفیسر معاشیات
یانس وروفاکیس نے تسلسل سے اس پر لکھا ہے، ان کی حالیہ کتاب سنہ 2023 میں اسی حوالے سے لکھی گئی کتاب (TechnoFeudalism: What Killed Capitalism)۔ ہے، مزے کی بات ہے کہ اس سے پہلے انہوں نے تسلسل سے سرمایہ دارانہ نظام کی بدلتی جہتوں پر کتابیں لکھی ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے ایک کتاب (Talking to My Daughter: A Brief History of Capitalism) لکھی تھی، اس کی بنیاد انہوں نے اپنی بیٹی کے اس سوال کو بنایا تھا، جب ان کی چھوٹی بیٹی نے اپنے والد یانس وروفاکیس سے پوچھا تھا کہ "ڈیڈی، دنیا میں اتنی عدم مساوات کیوں ہے؟ اس بات کے جواب کے لئے یانس وروفاکیس نے جتنی محنت کی اس کا نتیجہ نکلا (ٹاکنگ ٹو مائی ڈٹر: اے بریف ہسٹری آف کیپٹلزم) کے عنوان سے ایک بہترین کتاب لکھی گئی، اس کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ (بشمول عربی) ہوچکا ہے، یانس وروفاکیس نے اپنے تحریری مشن کو جاری رکھا، کئی اہم کتابیں شائع کیں، TechnoFeudalism بھی اس کتاب کا ضمیمہ ہے، یانس وروفاکیس جا اس کتاب میں نقطہ نظر ایک بنیادی مفروضے پر مبنی ہے: عصری سرمایہ داری اس لحاظ سے نابلد ہو چکی ہے کہ معاشی لٹریچر میں اس کی آپریٹنگ ڈائنامکس اب عصری معیشتوں کے ساتھ کام نہیں کرتی ہیں۔ یہ مسئلہ رسمی نہیں ہے جتنا کہ یہ ایک بنیادی، تاریخی تبدیلی ہے۔ سرمایہ داری کو بحیثیت مجموعی (اور صرف اس کا حصہ ہی نہیں) ایک اور نظام سے بدلا جا رہا ہے۔ اس مفروضے کے مرکز میں ایک مبہم اور غیر متوقع ستم ظریفی یہ ہے کہ سرمایہ داری کو ختم کرنے والا عنصر بھی بخود ایک سرمایہ دارانہ جاگیردانہ نظام ہے۔
اس بنیادی تبدیلی کا حتمی نتیجہ کیا ہے؟ ہماری دنیا میں اصل طاقت اب کلاسیکی سرمائے کے مالکان جیسے مشینوں، کارخانوں، ریلوے، ٹیلی فون نیٹ ورکس، صنعتی مشینوں وغیرہ کے ہاتھوں میں مرکوز نہیں رہی بلکہ طاقت زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو گئی ہے۔ ڈیجیٹل جاگیرداروں کی نئی کلاس، یعنی چھ عظیم بہنیں (ایمیزون، گوگل، ایپل، میٹا (یا فیس بک، مائیکروسافٹ، ٹیسلا) وغیرہ اس پر غالب ہوچکی ہیں۔ یانس وروفاکیس کی ان دو کتابوں سے پہلے ایک اور کتاب ہے اور یہ سب ایک دوسری کتابوں کا سیکوئیل ہیں، جن میں سات ابواب ہیں، پہلے دو میں یانس وروفاکیس سرمایہ داری کی کلاسک تاریخ کی وضاحت کرتا ہے (خصوصی طور پر سرمایہ داری کی تبدیلیاں.)، پھر تیسرے باب میں یہ کلاؤڈ کیپیٹل کے تصور سے متعلق ہے، اس کے بعد چوتھے باب میں کلاؤڈ کیپیٹل کی طاقت کا ظہور اور عروج، اور منافع کے روایتی تصور کا غائب ہونا، اور پھر پانچویں اور چھٹے ابواب میں یہ تکنیکی جاگیرداری کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر اور نئی سرد جنگ میں اس کے کردار سے متعلق ہے۔ ساتویں باب میں ڈیجیٹل جاگیرداروں کی طاقت سے بچنے کے مناسب ذرائع کے بارے میں بات کرنے پر منتج کی ہے۔ یانس وروفاکیس نے اپنی کتاب کو تین ضمیموں کے ساتھ ضمیمہ کیا ہے جو اضافی روشنی کے ساتھ کتاب کے مرکزی موضوع کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
یانس وروفاکیس کے علاوہ میں نے انٹرنیٹ پر اس موضوع کو جتنا کھوجا ہے، اس تعریفی اصطلاح کو ایسا ہی پایا ہے، ماسوائے یہ کہ یانس وروفاکیس خاص طور پر چونکہ معاشی موضوعات کو ایک پیچیدہ تاریخی سماجی سیاسی تناظر میں پیش کرتے ہیں، نہ کہ ایک ٹھوس معلومات کے طور پر اور اپنے مقالوں میں پختہ یقین کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، لیکن کئی دوسرے ہم عصر ماہر معاشیات کا یہ خیال ہے کہ یانس وروفاکیس یورپی یونین کے ساتھ اپنے تلخ تجربے کی روشنی میں لکھتے ہیں، جو یونان کو نیچا دکھانے اور سخت کفایت شعاری کی شرائط کے نفاذ کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی یانس وروفاکیس اپنے مارکسی سیاسی جھکاؤ کے ایک طالب علم کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو سرمایہ دارانہ نظام کی پوری شکل کو جاگیردارسنہ نظام سے ختم ہونے کی خواہش کے طور دیکھے جاتے ہیں، حالانکہ میں نے بھی جتنا ٹیکنو فیوڈلزم کو سمجھا ہے اس کے مطابق یہی ہے کہ نیو لبرل ازم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر جدید ٹیکنالوجی کے اس انقلاب نے واقعی ایک نئے جاگیرداری یا ایلیٹ کلاس کا سرمایہ دار پیدا کردیا ہے جو بہت طاقتور ہے۔ اس کی تعریف اوپر لکھی ہے، ممکنہ طور پر کوئی اہل علم اس میں ابہام یا غلط تشریحات کی رہنمائی کرسکتا ہے، بطور یانس وروفاکیس کے قاری ہم کسی سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کیونکہ کسی کی تھیوریکل نظرئیے کا کوئی پابند ہرگز نہیں ہوتا۔ سب سے اہم چیز ہے کہ ہم سیکھ رہے ہیں کہ عالمی معاشی نظام اب خالصتاً نظریاتی تخلیق نہیں رہے، بلکہ ٹیکنالوجی ان کی تشکیل میں فیصلہ کن عنصر بن چکی ہیں۔
یہ موضوع کی پہلی تحریر اس کی وضاحتی تعریف ہے، اس پر مکالمے کا آغاز ہے، یہ کمپنیاں باوجود آج کی ضرورت ہونے کے ساتھ کتنی اثر پذیری رکھتی ہیں، اور ایک دیو کی مانند کتنا غلبہ پا چکی ہیں، اور ہم انہیں آنکھیں بند کرکے کیسے فالو کررہے ہیں۔ اس کی ضرورت کے دائرے سے ہٹ کر ہم صرف ان کے مفاد میں کتنا معاون ہیں۔