افریقی بچوں نے اوبنٹو سے دنیا کو کیا پیغام دیا؟
ایک ماہر بشریات نے افریقی قبیلے کے بچوں کو ایک کھیل تجویز کیا، کھیل یہ تھا کہ اُس نے پھلوں سے بھری ایک ٹوکری ایک درخت کے پاس رکھ دی اور بچوں سے کہا کہ جو دوڑ کر وہاں پہلے پہنچے گا، وہ سارے میٹھے پھل جیت جائے گا۔
جب اس نے بچوں کو بھاگنے کا سگنل دیا تو وہ سب ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایک ساتھ بھاگنا شروع ہو گئے اور ایک ہی وقت پر ٹوکری کے پاس پہنچے۔
ماہر بشریات بچوں کی اس حرکت پر حیران ہوا ، جب اس نے ان بچوں سے پوچھا کہ وہ اس طرح اکٹھے کیوں بھاگے؟
اگر آپ میں سے کوئی ایک پہلے نمبر پر آ جاتا تو سارے پھل لے سکتا تھا، تو ان بچوں نے یک زبان ہو کر کہا ’’اوبنٹو‘‘۔ ہم میں سے کوئی ہار جاتا تو ہم کیسے خوش رہ سکتے تھے، ہم تو سب غمگین ہو جاتے ۔ اوبنٹو (UBUNTU) یہ افریقی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے،’’میں ہوں تو ہم ہیں‘‘
افریقہ کے مفلوک الحال بچوں نے اپنے عمل سے دنیا کو ایسا پیغام دیا ہے جو دنیا کی کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھایا جاتا۔
کسی بھی بچے نے اپنی ذات کی بجائے سب کا سوچا، یہ درس دنیا کے طاقتور ممالک کیلئے سنہرا اصول ہے جو افریقہ میں چھپے خزانے تو حاصل کر رہے ہیں مگر وہاں کے لوگوں کی بھوک کا انہیں ادراک نہیں ہے۔