قومی زبان سے ناآشنائی شرم کی بات ہے
پاکستان میں انگریزی زبان سیکھنے پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے، اس مقصد کیلئے ہر گلی کوچے میں دھڑا دھڑ انگلش میڈیم اسکول کھلے جہاں پر بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دی جانے لگی، بچوں کو مکمل طور پر انگریزی تو نہیں آئی البتہ ان کی اردو خراب ہو گئی اب ہمارے بچے اردو میں زیادہ تر انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یہاں تک تو ٹھیک ہے نقصان کی بات یہ ہے کہ بچوں کی اردو اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ درست الفاظ تک نہیں لکھ سکتے ہیں۔
یوں کچھ سالوں بعد ہماری صورتحال ویسی ہو جائے گی جیسی مغربی ممالک میں جا بسنے والی فیملیاں اپنے بچوں کی مادری و قومی زبان کے حوالے سے پریشان ہیں۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ ہمارے بچوں کو غیروں کی زبان تو فر فر آئے مگر اپنی زبان سے وہ ناآشنا ہوں، جس راستے پر چل کر ہم نے جو نظام اپنایا ہوا ہے وہاں پر بچوں کی انگریزی کا مسئلہ ہی نہیں ہے اردو کی فکر کیجئے۔
والدین اور حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے ذیل کی سطور میں ایک ایسی خاتون ڈاکٹر کی کہانی پیش کی جا رہی ہے جو امریکہ میں مقیم ہیں اور اپنے بچوں سمیت نسل نو کی اردو کو سکھانے کی کوشش کر رہی ہیں اگر ہم نے فوری طور پر توجہ نہ دی تو پھر ایسے حالات کا ہمیں بھی سامنا کرنا پڑے گا اور ہم بھی بچوں کو اردو سکھانے کی فکر میں سرگرداں دکھائی دیں گے۔
بیرون ممالک مقیم پاکستانی تارکین وطن کے لئے اپنی قومی زبان اور ثقافت سے محبت فطری امر ہے اور اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے بچے بھی آبائی ملک کی زبان سیکھیں مگر یہ اُن کے لئے آسان نہیں ہے تاہم امریکہ میں گزشتہ 15سال سے مقیم پاکستانی نژاد قرۃ العین شبیر اس مسئلے کے حل کے لئے کوشاں ہیں ۔
پیشے کے لحاظ سے قرۃ العین شبیرگردوںکے امراض کی ماہر ڈاکٹر ہیں جب کہ اُن کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں، اُردو زبان سے محبت انہیں ماںکی طرف سے ورثے میں ملی ہے، جو پاکستان کے ایک کالج میں شعبہ اُردو کی سربراہ کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر قرۃ العین شبیرکہتی ہیں کہ جب میری بیٹی بڑی ہوئی تو میری خواہش تھی کہ وہ اُردو زبان سیکھے چنانچہ میں نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے اُسے اردو سکھانے میں آسانی ہو۔
جب انٹرنیٹ پرکوئی مؤثر طریقہ نہیں ملا تو مجھے خیال آیا کہ کسی اور کی طرف دیکھنے کی بجائے خود ہی کچھ کیا جائے چنانچہ ڈاکٹر قر العین شبیر نے ’’ اُردو کوو‘‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ کا آغاز کیا، اس ویب سائٹ پر وہ اُردو اور انگریزی میں بلاگ لکھنے کے ساتھ ساتھ اُردو ٹائپنگ بھی سکھاتی ہیں جب کہ والدین اور بچوں کے لئے دیگر سرگرمیاں بھی یہاں موجود ہیں۔
ڈاکٹر قرۃ العین شبیر نے اپنی سات سالہ بیٹی کے ساتھ مل کر ’’اُردو سٹوری ٹائم‘‘ کے نام سے والدین کے لئے ایک گروپ بھی تشکیل دیا ہے جہاں ہر اتوار کو اُردو کہانی سنائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر قرۃ العین شبیر کہتی ہیں کہ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ آپس میں بچے ایک دوسرے سے اُردو میں بات کرکے اس زبان کو سیکھیں، یہ طریقہ لوگوں کو بہت پسند آیا ہے کیونکہ اس سے بچوں کو اُردو بولنے، سننے اور لکھنے کا موقع ملتا ہے۔
بچوں کے لئے ایسی کتاب ترتیب دینا بھی ضروری تھا جو قاعدے اور کہانی کا مجموعہ ہو اور اس سے بچوں کو اُردو حروف تجہی سکھینے میں مدد ملے یوں قرۃ العین نے ’’ الف ب پ کی کہانی‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ ایمزون، کتابوں کے سٹور BANNES $ NOBLE اور مارکیٹ میں ہر جگہ دستیاب ہے۔کورونا وباء کے دوران جب بچوں کو ڈے کیئر میں بھیجنا ممکن نہ رہا تو ڈاکٹر قرۃ العین شبیر نوکری چھوڑ کر بچوں کے ساتھ گھر پر موجود رہیں اور انہیں اُردو بولنا اور لکھنا سکھاتی رہیں، اس میں اُن کا دل اتنا لگ گیا کہ انہوں نے کام پر لوٹنے کے باوجود ان سرگرمیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔