’’اومی کرون‘‘ کو پاکستان آنے سے کیسے روکا جائے؟
کورونا کی نئی قسم ’’اومی کرون‘‘ افریقی ممالک اور ہانگ کانگ سے نکل کر دنیا میں تباہی مچا رہا ہے، طبی ماہرین نے اومی کرون کو کورونا کی خطرناک قسم قرار دیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ امی کرون کے متاثرین کیلئے مشکلات زیادہ ہیں، حتیٰ کہ جن افراد نے کووڈ کی ویکسین لگوا رکھی ہے ایسے افراد کے چالیس فیصد تک اومی کرون سے متاثر ہونے کے امکانات موجود ہیں حالانکہ کورونا کی پہلی قسم کے خلاف ویکسین 95فیصد تک کارآمد سمجھی جا رہی تھی۔حکومتوں نے کورونا کی نئی قسم کے خلاف بروقت انتظامات اورحفاظتی اقدامات اٹھانے تھے مگر حکومتیں بھی کہہ رہی ہیں کہ اومی کرون پر قابو آسان نہیں ہو گا اور یہ کہ اسے پھیلنے سے روکنا بہت مشکل ہو گا۔
نیشنل کمانڈ اینڈ کنڑول سینٹر(این سی اوسی)کے سربراہ اسد عمر نے کورونا نئی ویرینٹ اومی کرون کو پاکستان آنے سے روکنا ناممکن قرارد یا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایئرپورٹس پر مسافروں کی آمد و رفت پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں کیونکہ پہلے جب کورونا پھیلا تھا تو وقت بھی ایئرپورٹس اور بارڈر پر غفلت کئے جانے کی وجہ سے کورونا میں اضافہ ہوا تھا، جو مسافر افریقی ممالک یا ہانگ کانگ سے آ رہے ہیں ان کا خاص خیال رکھا جائے اور اگر کسی مسافر بارے معلوم ہو جائے کہ وہ اومی کرون سے متاثر ہے تو ایسے شخص کو کسی صورت گھر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایئرپورٹس عملہ بہت سے ایسے کام کر جاتا ہے جس کی اجازت نہیں ہوتی ہے، معمولی رشوت لے کر بڑے مجرم تک کو جانے دیتے ہیں، ایئرپورٹس پر سرعام رشوت لیتے ہوئے کئی اہلکاروں کی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں مگر اس کے باجود حکام بالا کو ایئر پورٹس عملے کو یہ بات سمجھانی ہو گی کہ مسئلے کی شدت کو سمجھیں اور ایسی کوئی غلطی نہ کریں جو اومی کرون کے پھیلنے کا سبب بن جائے۔اس ضمن میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ باہر سے آنے والوں کیلئے مزید اقدامات کرنے جارہے ہیں، ہم احتیاط کرکے نئے ویرینٹ کے اثرات کم کرسکتے ہیں لیکن اسے روک نہیں سکتے، پاکستان میں ویکسی نیشن کے باعث کئی ہفتوں سے کورونا کی شرح کم رہی، اگلے دو سے تین دن میں ویکسی نیشن کی بڑی مہم شروع کررہے ہیں، جن تین کروڑ پاکستانیوں نے ایک ڈوز لگوا لی ہے وہ آج ہی دوسری ڈوز لگوائیں، تمام اقدامات کر کے کورونا کی نئی قسم میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
اگر خدا نخواستہ کورونا کی نئی قسم پاکستان میں آ جاتی ہے تو ہمارا شعبہ صحت کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہماری معیشت، کیونکہ کورونا کی پہلی، دوسری اور تیسری لہر کے دوران ہم معاشی اعتبار سے بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ کورونان کی پہلی لہروں کے دوران پاکستان میں اس قدر جانی نقصان نہیں ہوا تھا جس قدر دیگر ممالک میں نقصان ہوا تھا سو ان حقائق کو سامنے رکھ کر حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اومی کرون کو پاکستان آنے سے حتیٰ الامکان کوشش کریں.