معتدل اور متوازن غذا اچھی صحت کیلئے کتنی ضروری؟

اللہ تعالیٰ کی انسانوں پر بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت صحت و تندرستی ہے۔ زندگی میں کامیابی کے لیے جس طرح منصوبہ بندی اور محنت ضروری ہے، اس طرح بلکہ اس سے بڑھ کر صحت و تندرستی ضروری ہے۔ صحت اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ایک ہے، جن کی عموماً ہم سے ناقدری اور بے پروائی ہوتی ہے۔ خاص طور پر صحت کے بارے میں بہت زیادہ غیر سنجیدہ طرزِ عمل اپنایا جاتا ہے۔ حالانکہ بھرپور اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے جسمانی صحت اور ذہنی تندرستی نہایت اہم ہے۔

اگر صحت ٹھیک ہے تو زندگی کی دیگر کامیابیاں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں اور اگر صحت بگڑی ہوئی ہے تو زندگی کی دوڑ میں شمولیت ختم ہو سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو ہم سے صحت کے سلسلے میں جو زیادہ کوتاہیاں ہوتی ہیں وہ خاص طور پر غذا سے متعلق ہوتی ہیں۔چونکہ صحت و تندرستی کا زیادہ تر تعلق غذا اور خوراک سے ہے، اس لیے سب سے زیادہ توجہ بھی اسی پر دینی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم زیادہ تر بے احتیاطی اسی غذا کے معاملے میں ہی برتتے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جو غذا ہم معمول کے مطابق کھاتے ہیں، وہ متوازن نہیں ہوتی، بلکہ ہم اپنے اپنے رجحان یا ذوق کے مطابق غذا کا انتخاب کرتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، اس سے ہماری صحت بھی غیر متوازن ہو جاتی ہے۔

انسانی جسم کو مناسب مقدار میں آئرن، پوٹاشیم، یورک ایسڈ، کیلشیم، شوگر اور وٹامنز وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ یہ ساری چیزیں غذا سے حاصل ہوتی ہیں اس لیے ان چیزوں کا حصول تب ہی ممکن ہو گا جب ہماری غذا متوازن ہو گی۔دوسری بات یہ ہے کہ لذیذ کھانے ہر کسی کو مرغوب ہیں، اس رغبت کے پیش نظر ہم لوگ لذیذ اور مرغن کھانوں کو تو ترجیح دیتے ہیں مگر مقوی کھانوں کو ترجیح نہیں دیتے۔ انسان کو زندگی کی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، بسا اوقات لذیذ کھانوں سے وہ حاصل نہیں ہوتی۔ اس لئے صرف چٹخارے دار اور لذیذ کھانوں پر اکتفا کرنے کی بجائے سادہ اور خالص غذاؤں کو بھی ہماری خوراک کا حصہ ہونا چاہیے، کیونکہ مسالے دار اور چٹخارے دار کھانے بھی ہماری صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

تیسری بات جس کا ہماری صحت پر منفی اثر پڑتا ہے، وہ ضرورت سے زیادہ کھانا ہے، جس کو بسیارخوری کہتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ زیادہ کھانے سے انسان پر سستی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور پھر انسان چلنے پھرنے یا مشقت والے کام سے جی چرا کر لیٹ جاتا ہے یا بعض لوگ دفاتر میں کرسی پر بیٹھ کر اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے انسان دیگر کئی عوارض کے ساتھ ساتھ موٹاپے جیسی موذی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جو بذات خود کئی بیماریوں کا مجموعہ ہے۔

عام طور پر شادی بیاہ اور دیگر دعوتی تقاریب میں لوگ زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے بعد میں ہاضمے کے حوالے سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ایک تو زیادہ کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے اور دوسرا مشقت والے کسی کام کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ ورنہ اس میں ذرا سی کوتاہی یا بے احتیاطی انسانی صحت کے لیے سخت مضر ہے اور ایسا انسان خوشگوار احساس کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتا۔اسی طرح ایک اور بہت بڑی غلطی جو ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ وقت پر کھانا نہیں کھاتے۔ وقت بے وقت کھانا کھانے کی عادت بھی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔

بھوک لگنے کے باوجود کھانا نہ کھانا اور بھوک لگے بغیر ہی کھانا کھانا، یہ دونوں باتیں بھی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ حکما کا قدیم اصول ہے کہ کھانا اسی وقت کھایا جائے جب آپ کو طلب ہو اور جب طلب نہ ہو تو کھانا نہ کھایا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ ساتھ ہمیں اپنی خوراک میں پھلوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ موسمی پھل ارزاں ہونے کی وجہ سے ہماری پہنچ میں ہوتے ہیں، ہم ان کو اپنی گنجائش کے مطابق وقتا فوقتاً خرید کر استعمال کرسکتے ہیں۔ اس طرح کھانے کی مقدار بھی کم ہو جائے گی اور پھل جلد ہضم ہو کر معدے پر بوجھ بھی نہیں بنیں گے اور ضروری طاقت بھی فراہم کریں گے۔جو لوگ ہلکا پھلکا، ہشاش بشاش اور خوشگوار رہنا پسند کرتے ہیں، ان کے لیے تین کام مفید ہو سکتے ہیں۔

ایک تو ہر ہفتے میں دو تین روزے رکھیں، کیونکہ میڈیکل کی رو سے روزہ رکھنا انسانی صحت کیلئے انتہائی مفید ہے۔ دوسرا یہ کہ دوپہر کے وقت بھوک لگے تو کھانا کھانے کی بجائے مختلف سبزیوں کا سلاد استعمال کر سکتے ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ رات کو بروقت کھانا کھا کر نماز عشاء کی ادائیگی کے لیے محلے کی مسجد میں پیدل جائیں اور نماز پڑھ کر پیدل واپس آئیں۔ اس طرح ورزش بھی ہو جائے گی اور ایک اہم فریضہ کی ادائیگی کی وجہ سے ثواب بھی۔

خلاصہ یہ ہے کہ اچھی صحت میں اچھی غذا کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ اوپر جن کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، ان سے بچ کر اور جو تجاویز دی گئی ہیں، ان کو اپنا کر ہم اپنی صحت کو پروان چڑھا سکتے ہیں، جس سے ہم اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کے ساتھ ساتھ کامیاب بھی بنا سکتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ذوالقرنین عباسی

مولانا ذوالقرنین عباسی مذہبی سکالر ہیں، وہ گزشہ کئی برسوں سے مذہبی و سماجی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔
Back to top button