فیضان نور: سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کا سالانہ اجتماع
علم پر عمل کرنے کے لئے اور قال سے حال پر آنے کے لئے دو محنتیں بہت ضروری ہیں۔ ایک بیمار دل کو قلب سلیم بنانے کے لئے اور دوسری نفس امارہ کو نفس مطمئنہ بنانے کے لئے۔ جب تک یہ محنتیں نہ ہوں اس وقت تک علم کے باوجود آدمی صحیح عمل سے اکثر محروم رہ سکتاہے۔ ان محنتوں کو تصوف اور طریقت کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔
راہِ طریقت و تصوف کا سفر کسی صاحب نظر کی صحبت اور کسی سلسلہ کے روحانی فیضان کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس روحانی ضرورت کی تکمیل کے لئے بھی بہت سے لوگ از خود روحانی منازل طے کرنے کے لئے مشائخ سے منسلک ہو کر سلسلے قائم کرتے رہے اور یوں مختلف سلاسل وجود میں آتے گئے۔ جاننا چاہیے کہ شریعت ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس میں ظاہر کی بھی اصلاح ہے اور باطن کی بھی۔ البتہ کسی کی ظاہر یا باطن میں اگراس کی کمی پائی جائے گی تو اس کی اصلاح ضروری ہوگی۔اس میں شرعی مجاہدات کے ذریعے نفس کی اصلاح ہے اور اس میں ذکر کے ذریعے دل کی اصلاح ہے۔
اب اگر شریعت پر ظاہر اور باطن کے مطابق کوئی ٹھیک چل رہا ہے تو اس کو مزید کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں جیسے صحابہ کرام کو ان اضافی مجاہدات کی ضرورت نہیں تھی ۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ان کو ضرورت پڑی تو انہوں نے اسی وقت اس کے مطابق مجاہدہ کرکے اس عمل کو درست کیا۔بعد کے ادوار میں چونکہ کمزوری آئی تو اس کے باقاعدہ طریقے وجود میں آئے گویا طریقت کی بنیاد پڑگئی اور اس کے لئے خانقاہیں بن گئیں جیسے علم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مدارس وجود میں آئے۔تصوف عملی چیز ہے اور عملی چیز حالات کے مطابق بدلنی پڑتی ہے جو اس کو نہیں جانتا وہ رسمی صوفی ہوتا ہے،عملی نہیں ۔نہ خود پہنچا نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔
حضرت اقدس خادم الامت مفتی سید ابوالحسن نور زمان ہاشمی نے سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کا احیاء کیا اورخصوصاً اولیاء کرام اور مشائخ کی ترتیب کو دوبارہ زندہ کیا اور وجود بخشا ہے جسے زمانہ دراز سے چھوڑ دیا گیا تھا۔ شیخ ابوالحسن نے فیوض النور اور تحفة المشائخ کی صورت میں وظائف (اسباق) سالکین کوعطاء کیے یہ وہ وظائف ہیں کہ جن کانصاب انہیں الہامی طورپرمکمل کروایا گیا ہے۔ فیوض النورمیں تمام عام اور خاص اللہ کے متلاشیوں کے لیے روحانی اسباق موجود ہیں خواہ وہ ابتدائی، درمیانی یا آخری سطح پر ہوں۔ یہ ہر مسلمان کو اللہ کے قرب، بصیرت اور ملاپ کی طرف دعوت دیتی ہے۔
روحانی وظائف پرمشتمل اس کتاب کا کمال یہ ہے کہ صرف ایمان اور سچی عقیدت کے ساتھ پڑھ کر اپنے قارئین کو روحانی طور پر بلند کرتی ہے۔ یہ اس فانی دنیا کی عارضی دولت اور عزت کی خواہشات سے توجہ ہٹا کر آخرت میں اللہ کے قرب کے خزانوں اور عزت کی طرف مبذول کر دیتی ہے جوشخص بھی سلسلہ کی ترتیب کے مطابق اس نصاب کومکمل کرے گا اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت کی بھلائیاں نصیب کرے گا۔ شیخ ابوالحسن اس کو خزانے اور عزت کی کنجی بھی بتاتے ہیں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ جو بھی اس کتاب کو حقیقت کی تلاش کے لیے سچے ارادے سے پڑھے گا، اسے اپنے مقصد کی تکمیل میں ضرور برکت ہوگی اوروہ روحانی منازل حاصل کرکے رہے گا ۔
نوجوان عالم دین مفتی امان اللہ نقشبندی شاذلی نے اب تین جلدوں میں شرح فیوض النور لکھ کر احسان عظیم کیا ہے، مفتی امان اللہ کا تعلق گھوٹکی سندہ سے، جامعہ بنوریہ عالمیہ کے فاضل ہیں اور اس وقت جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی میں ہی شعبہ تصنیف و تحقیق سے وابستہ ہیں اس کتاب میں انہوں نے فیوض النور میں موجود تمام اذکار کے اثرات، ثمرات ان کے مطلب و معانی اور خصوصاً ان اذکار کے مجربات کو بڑی جانفشانی اور محنت سے جمع کیا ہے یہ ایک ایسی جامع و مانع کتاب ہے کہ جس میں سالکین اورعوام کو مکمل طور پر رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ صرف عملیات کا سلسلہ نہیں بلکہ تصوف و طریقت کا ایک انمول خزانہ ہے جس میں تمام سلاسل کے اسباق بھی کروائے جاتے ہیں اور انہیں اس راہ کی تمام باریکیوں سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔
جس طر ح شیخ ابوالحسن نور زمان نقشبندی شاذلی اپنے الفاظ کی تائید کے لیے آیات قرآنی، احادیث اور دیگر اولیا کرام کے اقوال کو خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں، جو حق کے متلاشیوں کو ان کے اقوال پر بے ساختہ یقین کرنے اور اس پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اسی طرح مفتی امان اللہ نے شرح فیوض النورمیں تصوف ،تزکیہ ،روحانی علاج ،عملیات ،علاج بالرقی کے حوالے سے بیش بہامعلومات جمع کی ہیں اورمدلل اندازمیں اپنی بات قارئین کے سامنے رکھی ہے یہ ایک انمول خزانہ ہے جسے ہر سالک کے گھر لازمی ہونا چاہیے، اللہ انہیں جزائے خیرعطاء فرمائے ،امین
شیخ ابوالحسن نورزمان کی ہرمحفل اورمجلس ہی علم ومعرفت کے موتیوں سے مزین ہوتی ہے وہ علوم ومعارف کی گتھیاں نہایت ہی آسان اندازمیں سلجھاتے اورسمجھاتے ہیں نکات و اسرار کی مشکل گرہیں چٹکی میں کھول دیتے ہیں شبہات اور اعتراضات احسن اندازمیں زائل کرتے ہیں عبارات کی تحقیق وتطبیق ایسے کرتے ہیں کہ بڑے بڑے علماء بھی عش عش کراٹھتے ہیں جامع اورمانع اندازمیں اپنی بات مخالف کے سامنے رکھتے کا سلیقہ جانتے ہیں غرضیکہ آپ صاحب مراتب و منازل، جامع کمال وجمال شخصیت کے مالک ہیں آپ کا فیض ہر ایک کے لیے یکساں ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ یہ فیض بڑھتا اور پھیلتا جا رہا ہے۔
آج کے دور میں ایک طرف ذہنی انتشار ہے تو دوسری طرف نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے سامان بہت عام ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ شعبدہ بازوں کی وجہ سے عوام سے اصلی علم اوجھل ہو گیا ہے جس سے جاہل لوگ علما کو جاہل کہنے لگے ہیں۔ ان حالات میں عوام میں صحیح چیز کی طلب کا پیدا کرنا بھی بہت بڑا کام ہے۔ اس کے بعد جن میں طلب پیدا ہو ان کی اصلاح کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
دور حاضرمیں سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ بھی اپنے متعلقین کو کثرت ذکر کرواتا ہے تاکہ اس ذکر کی برکت سے تزکیہ نفس اورسلاسل کے فیوضات حاصل ہوں اور گناہ گاروں کو توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے معاملات کی صفائی اور اعمال کرنے کی توفیق ہر لمحہ سنت کے مطابق حاصل ہو جائے اس سلسلے کی کرامت یہ ہے کہ اس سلسلے کامریض جتنا کثرت سے ذکرکرتا ہے اوروں کے ہاں صحت مند شخص بھی اتنا ذکر نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں رہ کر اگر کوئی شخص ذکر کرے گا تو اللہ تعالی اسے جلد صحت یاب فرماتاہے مجنوں اور پاگل شخص بھی اس سلسلے میں داخل ہوتا ہے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ کثرت ذکر کی برکت سے صحت عطا فرما دیتا ہے ۔
یہ شیخ ابوالحسن کا کمال ہے کہ انہوں نے آج کے دورمیں انہوں نے اپنے متعلقین کو روحانی علاج (عملیات) کی بھی ایک خاص مہارت دی ہے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے شیخ ابوالحسن نور زمان جو عقل و شعور میں علم و حکمت کے ایسے چراغ روشن کررہے ہیں کہ آئندہ آنے والی صدیاں بھی ان سے منور ہوتی رہیں گی۔ شیخ کی علمی، فکری، نظریاتی اور روحانی تعلیمات اور فیوضات کے حصول کے لیے طویل ریاضت درکار ہے۔ اس لیے کہ شیخ ابوالحسن ایک ایسے منفرد شیخ اور عبدِ صالح ہیں جو مستغرقِ شرابِ طہور اور مستغنی دنیا و مافیہا ہیں؛ جو عالمِ مطمئنہ میں جود و سخاِ قلبی کے باعث عطائے نظری، عطائے علمی، عطائے روحانی، عطائے الوہی اور عطائے مصطفوی کے جام بھر بھر کر پلاتے ہیں۔ لہذا جو طالب؛ عشق و معرفتِ حقیقی کا پیالہ اپنی وسعتِ حلق میں اتار لیتا ہے، وہی اِن علمی و روحانی فیوضات سے اکتسابِ فیض کرتا ہے اور شیخ ابوالحسن کے فلسفہ عشق اور علم کی گہرائی اور وسعت کو پاجاتا ہے، تاہم شرطِ لازم طالب کی وسعتِ طلبی ہے۔ برتنِ طلب اور جستجو جتنی وسیع ہوگی، عطا کی وسعت اتنی ہی ہوگی۔
نوٹ۔ سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کا بارہواں سالانہ اجتماع عام 7-8-9 ربیع الاول کو گلشن محمد نزد عبداللہ گبول گوٹھ کراچی میں منعقد ہو رہا ہے جس میں تمام احباب سے شرکت کی درخواست ہے۔