کوئی تدبیر موت کو ٹال نہیں سکتی
ابن جریر اور ابن حاتم میں ایک مطول قصہ بزبان حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ مروی ہے کہ اگلے زمانے میں ایک عورت حاملہ تھی جب اسے درد ہونے لگا اور بچی تولد ہوئی تو اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ جائو کہیں سے آگ لے آئو۔وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا لڑکی یا لڑکا؟ اس نے کہا لڑکی ہوئی ہے ۔کہا سن یہ لڑکی ایک سو آدمیوں سے خلوت کرائے گی پھر اس کے وہاں اب جو شخص ملازم ہے اسی سے اس کا نکاح ہو گا اور ایک مکڑی اس کی موت کا باعث بنے گی۔
وہ ملازم یہیں سے پلٹ آیا اور آتے ہی تیز چھری لے کر اس لڑکی کے پیٹ کو چیر ڈالا اور اسے مردہ سمجھ کر وہاں سے بھاگ نکلا،اس کی ماں نے یہ حال دیکھا تو اپنی بچی کے پیٹ میں ٹانکے دیئے اور علاج معالجہ شروع کیا،جس سے اس کا زخم بھر گیا۔اب ایک زمانہ گزر گیا ادھر یہ لڑکی بلوغت کو پہنچ گئی اور تھی بھی اچھی شکل و صورت کی،بد چلنی میں پڑ گئی۔ادھر وہ ملازم سمندر کے راستے کہیں چلا گیا،کام کاج شروع کیا اور بہت رقم پیدا کی،کل مال سمیٹ کر بہت مدت بعد یہ پھر اسی اپنے گائوں میں آ گیا اور ایک بڑھیا عورت کو بلا کر کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں۔گائوں میں بہت خوبصورت عورت ہو اس سے میرا نکاح کرا دو۔ یہ عورت گئی اور چونکہ شہر بھر میں اس لڑکی سے زیادہ خوش شکل کوئی عورت نہ تھی یہیں پیغام ڈالا،منظور ہو گیا نکاح بھی ہو گیا اور وداع ہو کر یہ اس کے یہاں آ بھی گئی۔
دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہوگئی ایک دن اس عورت نے اس سے پوچھا آخر آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں یہاں کیسے آ گئے؟ اس نے اپنا تمام ماجرہ بیان کر دیا کہ میں یہاں ایک عورت کے ہاں ملازم تھا وہاں سے اس کی لڑکی کے ساتھ یہ حرکت کر کے بھاگ گیا تھا اب اتنے برسوں بعد یہاں آیا ہوں،تو اس لڑکی نے کہا کہ جس کا پیٹ چیر کر تم بھاگے تھے میں ہی ہوں۔یہ کہہ کر اپنے اس زخم کا نشان بھی اسے دکھایا،تب تو اسے یقین آ گیا اورکہنے لگا جب تو وہی ہے تو ایک بات تیری نسبت مجھے اور بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تو ایک سو آدمی سے مجھ سے پہلے مل چکی ہے۔اس نے کہا ٹھیک ہے،یہ کام تو مجھ سے ہوا ہے لیکن گنتی یاد نہیں۔
اس نے کہا کہ مجھے تیری نسبت ایک اور بات بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تیری موت کا سبب ایک مکڑی بنے گی،خیر چونکہ مجھے تجھ سے بہت زیادہ محبت ہے میں تیرے لئے ایک بلند و بالا پختہ اور اعلیٰ محل تعمیر کرا دیتا ہوں،اس میں تو رہ تاکہ وہاں تک ایسے کیڑے مکوڑے پہنچ ہی نہ سکیں۔چنانچہ ایسا ہی محل تعمیر ہوا اور یہ وہاں رہنے سہنے لگی،ایک مدت بعد ایک روز دونوں میاں بیوی بیٹھے تھے کہ اچانک چھت پر ایک مکڑی دکھائی دی،اسے دیکھتے ہی اس شخص نے کہا،دیکھو!آج یہاں مکڑی دکھائی دی،عورت بولی اچھا یہ میری جان لیوا ہے؟ غلام کو حکم دیا کہ اسے زندہ پکڑ کر میرے سامنے لائو،وہ پکڑ کر لایا،اس نے زمین پر رکھ کر اپنے پیر کے انگوٹھے سے اسے مل ڈالا اور اس کی جان نکل گئی اس سے جو پیپ نکلا اس کا ایک آدھ قطرہ اس کے انگوٹھے کے ناخن اور گوشت کے درمیان اڑ کر پڑا اس کا زہر چڑھا پیر سیاہ پڑ گیا اور اسی میں مر گئی۔ (تفسیر ابن کثیر:۱/۶۰۲،۶۰۳)