دلہن کے مثبت کردار نے دو دلوں کو جوڑ دیا
ابھی وہ اس دنیا میں نہیں آیا تھا کہ اس کا والد شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا گیا۔ شاید اس کے والدین میں کسی بات پر اختلاف کا زہر پھیل گیا تھا، اس کا والد اس کی ماں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نے اس جہان رنگ و بو میں آنکھیں کھولیں تو وہ ایک یتیم کی طرح تھا۔ باپ کے ہوتے ہوئے بھی اسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ اس کے پاس رہنے کیلئے ایک گھر تھا اور معاش کی ذمہ داری بھی ماں ہی کے نازک کندھوں پر تھی۔
ماں نے اس کی پرورش و پرداخت میں کوئی کوتاہی نہیں کی، جہاں تک ممکن ہو سکا،اسے پالا پوسا اور جوان کیا۔ مگر بچپن سے جوانی تک اسے اپنے باپ کا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہو سکا۔ اسے اتنا تو معلوم تھا کہ اس کا باپ زندہ ہے مگر اس بات کا اسے شدید صدمہ بھی تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کا باپ اسے دیکھنے نہیں آتا، میری ماں کے ساتھ اس کے اختلافات ہوں تو ہوں، میں تو اس کا بیٹا ہوں، پھر وہ مجھے کیوں نظر انداز کر رہا ہے؟ اس قسم کی باتیں اس کے ذہن میں آتیں،اس کے دماغ میں ایک کوندا سا لپکتا اور پھر وہ تصورات کی دنیا میں کھو جاتا۔
وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔اس دوران اسے صرف دو تین دفعہ ہی اپنے والد کو دیکھنے کا موقع ملا۔ مگر باپ بیٹے کی قربت کی جو چاشنی ہوا کرتی ہے۔ باپ بیٹے کے مابین جو قلبی لگائو اور محبت ہوا کرتی ہے۔ اس سے دونوں ہی محروم تھے۔ اتفاق سے ایک دن اس کے لیے ایک لڑکی سے شادی کا رشتہ آیا۔ اس کی ماں نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ وہ لڑکی بیٹے کو بھی پسند آ گئی۔ لڑکی سلجھی ہوئی تھی۔خوبصورت تھی۔سنجیدہ تھی۔دیندار تھی۔ اس کا خاندان بھی نیک نام تھا۔ اس کے ماں باپ بھی اچھے اخلاق و کردار کے مالک تھے،چنانچہ چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق یہ شادی آناً فاناً ہوئی اور لڑکی اس کے گھر جلوہ افروز ہو گئی۔
یہ لڑکی حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت کی بھی مالک تھی، ویسے تو اسے رشتے سے پہلے ہی اپنے شوہر کے خاندان کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہو چکی تھیں، لیکن جب وہ اس گھر میں بہو کی حیثیت سے داخل ہوئی تو جیسے جیسے دن گزرتے گئے اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے شوہر اور سسر میں بڑے عرصے سے جدائی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ بہو جب گھر میں قدم رکھتی ہے تو اسے سب سے زیادہ اپنے اور اپنے شوہر کے مفاد کی فکر ہوتی ہے۔ ساس اور سسر کے ناگفتہ بہ حالات کو سدھارنا یا انہیں اپنے ساتھ شریک رکھنا یا اس سے متعلقہ معاملات سے بہوئوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بہو ان بہوئوں سے مختلف تھی۔ اس کا مزاج دینی تھا۔ یہ حال میں گھر کا ماحول خوشگوار دیکھنے کی آرزو مند تھی۔اس کا بیان:جب میری شادی ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے شوہر اور اس کے والد کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا شوہر اپنے والدکو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور باپ کا نام آتے ہی بھڑک اٹھتا ہے۔ میں نے تدبیر سوچی اور باپ بیٹے کے درمیان الفت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں میرے عمل کا پہلا قدم یہ تھا کہ میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ اسلام میں صلہ رحمی کے کیا معنی ہیں؟ جب میں نے اس سلسلے میں شوہر کا جواب سنا اور اس کے تیور دیکھے تو معلوم ہوا کہ میرا شوہر صلہ رحمی کے معنوں سے بھی آگاہ نہیں ہے۔ خصوصاً والد کے احترام سے وہ بالکل بے خبر تھا۔
ہمارے گھر کا ماحول یہ تھا کہ میرے شوہر کا مزاج الگ تھا۔ اور ساس باہمی اختلافات کے سبب اپنے شوہر کو بھول چکی تھیں۔ میں سوچنے لگی کہ یہ قطع رحمی نہیں تو اور کیا ہے؟ آخر ہم کب تک صلہ رحمی جیسے ضروری دینی حکم کو فراموش کیے رہیں گے؟ جب ہمارا معاملہ ایسا ہے تو پھر اپنی اولاد سے ہم کیوں کر امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ صلہ رحمی کرے گی اور ہمارے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گی؟ چنانچہ میں اپنے شوہر کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش میں لگ گئی کہ وہ کسی طرح اپنے والد سے ملاقات کے لیے ہامی بھرے۔ یہ واضح رہے کہ میں اپنے شوہر کو طنزیہ انداز میں نہیں،بلکہ بڑے اچھے انداز میں پیار کے ساتھ سمجھاتی تھی۔ اس موضوع کو میں نے اپنے اور اپنے شوہر کے لیے انتہائی اہم بنا دیا۔ میں بات بات میں اسے سمجھاتی اور جنت کا شوق دلاتی کہ ماں باپ کے پیروں تلے جنت ہے اور ماں باپ کے ساتھ قطع رحمی کرنے والا اللہ تعالیٰ کے مردور بندوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ قطع رحمی کرنے والوں کو جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اولاد پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’ اور تیرے پروردگار نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ صرف اور صرف اسی کی عبادت کرو اور یہ کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘
لیکن ہر دفعہ میری باتیں سننے کے بعد میرے شوہر کا یہی جواب ہوتا کہ کیا تم اس باپ کی بات کر رہی ہو جس نے بچپن ہی میں مجھے لاوارث لاش کی طرح چھوڑ دیا تھا، مجھے دیکھنے تک نہیں آتا تھا۔ جس نے مجھے یتیم کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ میں بچپن سے جوانی تک محرومی کا شکار رہا۔ بھلا میں اب اس کے ساتھ حسن سلوک کروں جس کی طرف سے مجھے آج تک کوئی خوشی نہیں پہنچی۔ میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ باپ کیا ہوتا ہے اور باپ کی محبت کس بلا کا نام ہے؟
میں بار بار اپنے شوہر سے یہی کہتی کہ چلو تمہارے باپ نے تمہارا حق ضائع کر دیا لیکن اب تم عقلمندی سے کام لو۔ اپنے والد کے حقوق کو ضائع نہ کرو۔یہ سچ ہے کہ تمہارے والد نے تمہارے بارے میں اپنا فرض ادا نہیں کیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم بھی اس کے حقوق سے سبکدوش ہو۔ تمہارے والد کا تم پر جو حق ہے وہ آج بھی اسی طرح برقرار ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ کیا تم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا:
’’کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑ دے، دونوں جب ملیں تو ایک دوسرے سے منہ موڑ لیں اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔‘‘
تم مجھے جواب دو کہ اگر میرے پیٹ میں پلنے والے بچے کا سلوک بھی ہم دونوں میاں بیوی کے ساتھ ویسا ہی ہو گا جیسا سلوک تم اپنے والد کے ساتھ کر رہے ہو، تو تمہیںکیسا محسوس ہو گا ؟ کیا بیتے گی اس روز تمہارے دل پر؟کبھی تم نے اس حوالے سے بھی سوچا ہے؟….کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ تم اپنے بچے کے لیے بہترین نمونہ بنو؟ اللہ کا شکر کہ میرا شوہر اب میری باتیں شوق سے سننے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب اس کا دل اپنے باپ کے لیے نرم پڑنے لگا ہے اور وہ میری باتوں پر دھیان دینے لگا ہے، میں نے یہ موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اسے والدین کے حقوق کے حوالے سے بہت ساری باتیں بتلائیں۔ اس کا پسیجا ہوا دل دیکھ کر میں نے والد سے ملاقات کی تجویز رکھ دی۔ اب کیا تھا، اس کا دل تو نرم پڑ ہی گیا تھا، اس نے میری تجویز قبول کر لی اور والد سے ملاقات کے لیے راضی ہو گیا۔ اللہ عزوجل نے سچ فرمایا:
’’مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
میری دعا رنگ لائی۔ ہم دونوں میاں بیوی والد سے ملاقات کی غرض سے ان کے شہر پہنچ چکے تھے۔ میرے شوہر نے آگے بڑھ کر اپنے والد کے سرکا بوسہ لیا۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا بوسہ تھا۔ میں یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی۔ باپ بیٹے کی پہلی ملاقات کا یہ منظر قابل دید تھا۔ بیٹے کی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور باپ کا برسوں کی محبت کا خوابیدہ جذبہ بھی امڈ پڑا تھا، اس نے بیٹے کو یوں سینے سے لگا لیا جیسے وہ کئی برسوں کی محبت کی قیمت یکمشت ادا کر رہا ہو۔
اس کے بعد باپ بیٹے میں اس قدر محبت ہو گئی کہ لگتا ہی نہ تھا کہ پہلے کبھی ان میں کوئی رنجش تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے پر اپنی محبتیں نچھاور کرنے لگے۔ ایک دوسرے سے ملاقات ان کے معمولات میں داخل ہو گئی۔ گاہے بگاہے ان کی مجلسیں منعقد ہونے لگیں۔ میرا شوہر بھی اپنے والد کا مطیع و فرماں بردار بن گیا۔ میرے سسر نے بھی حقوق اولاد کے جملہ واجبات کو مکمل کر دکھایا۔
میں سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ فضل اور کرم کے بعد میں ہی وہ گنہگار بیوی ہوں جس کی بدولت دو دل آپس میں مل گئے۔
کاش !اسلامی معاشرے میں ہماری بہو بیٹیاں اسی طرح مثالی کردار ادا کریں، جیسا کہ مذکورہ بہو نے کیا، تاکہ ہمارا معاشرہ پیار محبت اور باہمی تعاون کا گہوارہ بن جائے۔