اسلام میں توہم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں
کسی خوف یا جہالت کی بنا پر غیر عقلی عقائد پر یقین رکھنا توہم پرستی ہے۔ اگرچہ اسلام میں توہم پرستی یا بدشگونی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، تاہم اس کے باوجود مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس مرض میں مبتلا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ تو مسلمانوں کی کم علمی، جہالت اور دینی احکام سے ناواقفیت ہے۔ چنانچہ بہت سے مسلمان محض کم علمی، جہالت اور دینی شعور نہ ہونے کی وجہ سے توہم پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دوسری وجہ ایک لمبے عرصے تک برصغیر پاک و ہند میں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ رہتے رہے، ہندوؤں میں توہم پرستی حد درجہ کی پائی جاتی ہے، انہی کے ساتھ میل جول اور یکجا معاشرت کے زیر اثر یہ مرض کمزور عقیدے کے مسلمانوں تک منتقل ہو گیا۔
آج بھی اسلامی معاشرے میں وہی ہندوانہ توہم پرستی حد درجہ عام ہے، مثلاً
نو مولود کو نظر بد سے بچانے کے لیے پیشانی پر کاجل (سرمہ) کا نشان لگانا۔
شام کے وقت صفائی (جھاڑو) کرنے سے گریز کرنا۔
مرد کی دائیں اور عورت کی بائیں آنکھ پھڑکنے کو خوش خبری سے مشروط کرنا۔
چارپائی پر ٹانگیں لٹکانے کی حالت میں پاؤں ہلانے کو دولت سے محرومی کا باعث سمجھنا۔
پیاز یا چھری سرہانے رکھنے سے برے خوابوں سے نجات ملنا۔
کالی بلی کا راستہ کاٹنے سے بدفالی لینا۔
ٹوٹے ہوئے آئینے میں چہرہ دیکھنے سے بھی بدفالی لینا۔
دودھ کا ابل کر برتن سے باہر گر جانے کی صورت میں بدفالی لینا۔
مغرب کے بعد گھر کی ساری بتیاں جلا دینا ورنہ بد روحیں آ جانے کا تصور رکھنا۔
خالی قینچی چلانے سے قطع تعلق ہو جانا۔
کانچ کے ٹوٹنے سے بدفالی لینا۔
بلی یا کتے کا رونا نحوست اور بے برکتی کا باعث سمجھنا۔
منڈیر پر کوا بیٹھا تو مہمان آنے کی پیش گوئی کرنا۔
چھینک آئے تو سمجھنا کہ کوئی یاد کر رہا ہے۔
دائیں ہاتھ میں خارش ہے تو دولت آئے گی۔
بائیں ہاتھ میں خارش ہے تو دولت جائے گی۔
دوسری طرف دنیا کے ترقی یافتہ کہلائے جانے والے ملکوں میں بھی حد درجہ توہم پرستی اور بد شگونی پائی جاتی ہے۔ مثلاً:
سپین میں منگل کے دن مہینے کی 13 تاریخ ہو تو اسے قومی طور پر بد قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
چائنہ میں آٹھ کا ہندسہ مبارک اور چار کا ہندسہ منحوس خیال کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ کچھ لوگ عمارت کی چوتھی منزل تعمیر نہیں کرتے۔
آئرلینڈ میں دلہن اپنے لباس یا زیورات میں چھوٹی گھنٹی ضرور استعمال کرتی ہے، جسے خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
روس میں خالی بالٹی کہیں لے جانے کو برا شگون سمجھا جاتا ہے۔ فن لینڈ کے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اگر مکڑی کو مارا جائے تو اگلے دن بارش ہوگی۔
مصر میں خالی کینچی چلانے کو برا سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس سے ہوا میں موجود بد روحیں کٹ جاتی ہیں، جن کے باعث ان کو غصہ آتا ہے۔
سوئزر لینڈ اور نیدرلینڈ کے لوگ مضبوط ازدواجی تعلقات کے لیے شادی کے بعد گھر کے باہر صنوبر کا درخت لگاتے ہیں۔
برطانیہ میں چیونٹیوں کی آمد برے موسم اور ان کا قطار میں چلنا بارش ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
قدیم عرب معاشرے میں لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے۔ اسی طرح موجودہ زمانے کے بعض مسلمان صفر المظفر کے حوالے سے بدشگونی میں مبتلا ہیں، جیسا کہ عوام میں مشہور ہے کہ ماہ صفر المظفر مصائب و آلام اور غم و تکلیف کا مہینہ ہے۔
بعض لوگ اس کے ابتدائی 13 دنوں کو منحوس خیال کرتے، نئے شادی شدہ جوڑوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتے اور ان دنوں میں خوشی کا کوئی کام نہیں کرتے اور اس ماہ کے آخری بدھ کو خاص کھانے پکانے اور تقسیم کرنے کا رواج ہے۔ یہ سب توہم پرستی اور بدشگونی کا نتیجہ ہے، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "جس شخص کو بدشگونی نے کسی کام سے روک دیا تو اس نے شرک کیا، صحابۂ کرام نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! اس کا کفارہ اور علاج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسا شخص یہ دعا پڑھے، "اے اللہ جو بھی خیر ہے وہ تیری طرف سے ہے اور جو بھی بد شگونی ہے وہ تیرے ہی حکم سے ہے (اس کے علاوہ کوئی بدشگونی نہیں) اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ (مسند احمد 7045)
دوسری جگہ فرمایا: "کسی چیز کو منحوس سمجھنا شرک ہے، شرک ہے، شرک ہے۔ (تین مرتبہ فرمایا) (ابو داؤد 3910)
نیز ایک مقام پر فرمایا: نہ بدشگونی کی کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے” (بخاری 5757)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت اور دین کی سمجھ عطا فرمائے۔