مناقب امام عالی مقام سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ
رسول اکرمؐ نے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: ’’اے اللہ! مَیں ان سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا تو بھی ان سے محبت کر‘‘۔ (مسند احمد، ترمذی)
سیدنا حضرت حسینؓ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے صفحات روشن ہیں،حضرت امام حسینؓ رسولؐ اللہ کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا کے بیٹے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ اپنے بھائی حضرت امام حسنؓ کے بعد پیدا ہوئے اور حضرت امام حسنؓ 3ہجری میں پیدا ہوئے۔جبکہ امام حسینؓ 5 شعبان 4 ہجری کو پیدا ہوئے اور قتادہؓ نے بیان کیا ہے کہ حضرت امام حسینؓ چھٹے سال کے پانچویں مہینے کی 15 تاریخ کو پیداہوئے اور محرم 21 ہجری کے 10ویں دن بروز جمعتہ المبارک شہید ہوئے ، آپ کی عمر 54 سال ساڑھے چھ ماہ تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے حضرت امام حسینؓ کو گھٹی دی اور ان کے منہ میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لئے دعا کی اور آپ کا نام حسین رکھااور عقیقہ کیا۔ سیدنا حضرت حسینؓ نے اپنے نانا حضور اکرم ؐسے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علیؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔ جس کی وجہ سے آپ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت، رحمدلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے۔
حضرت علی المرتضیٰ سے روایت ہے کہ حضرت امام حسینؓ سینے کے درمیان سے سر تک رسولؐ اللہ کے مشابہ تھے اور حضرت امام حسینؓ اس سے نچلے حصے میں آپ کے مشابہ تھے۔
زبیر بن بکار نے بیان کیا ہے کہ محمد بن ضحاک خزاعی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت حسینؓ کا چہرہ رسولؐ اللہ کے چہرے سے مشابہ تھا اور حضرت امام حسینؓ کا جسم رسولؐ اللہ کے جسم سے مشابہ تھا۔
حضرت امام حسینؓ نے حضور نبی کریمؐ کی زندگی سے 5 سال یا اس کے قریب پائے اور آپ سے احادیث روایت کی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام حسینؓ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ رسول اکرم ؐ کی سب سے چھوٹی اور سب سے پیاری صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے لختِ جگر تھے اور رسول اکرمؐ کو آپ سے اور اِسی طرح امام حسینؓ سے شدید محبت تھی۔
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک صحابی نے مجھے خبر دی کہ رسول اکرمؐ نے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: ’’اے اللہ! مَیں ان سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا تو بھی ان سے محبت کر‘‘۔ (مسند احمد، ترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اکرمؐ اپنے گھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی تھے، ایک آپ کے ایک کندھے پر اور دوسرے آپ کے دوسرے کندھے پر تھے اور آپ کبھی ایک سے پیار کرتے اور کبھی دوسرے سے۔ چنانچہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ ! کیا آپ کو ان سے محبت ہے؟ آپ نے فرمایا:’’جس نے اِن سے محبت کی اْس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اِن سے بغض رکھا اْس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘۔ (احمد، ابن ماجہ)
حضرت بریدہؓ کا بیان ہے کہ رسول اکرمؐ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نمودار ہوئے۔ انہوں نے سرخ رنگ کی قمیضیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ ان میں بار بار پھسل رہے تھے، چنانچہ رسول اکرمؐ منبر سے نیچے اْترے، اپنا خطبہ روک دیا، انہیں اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر آپ انہیں اٹھائے ہوئے منبر پر چڑھے۔ اس کے بعد فرمایا:مَیں نے انہیں دیکھا تو مجھ سے رہا نہ جا سکا‘‘۔ پھر آپ نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا: (ابو داؤد نسائی)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا گیا کہ حالتِ احرام میں اگر کوئی آدمی ایک مکھی کو مار دے تو اس کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: اہلِ عراق مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں، حالانکہ وہ تو نواسہ رسولؐ کے قاتل ہیں! اور رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا: ’’(حسنؓ اور حسینؓ ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں‘‘۔ (بخاری)
جبکہ سنن ترمذی میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اہلِ عراق میں سے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے سوال کیا کہ اگر مچھر کا خون کپڑے پر لگ جائے تو اس کا کیا حکم؟ انہوں نے کہا: اس آدمی کو دیکھو! یہ مچھر کے خون کے متعلق سوال کرتا ہے، جبکہ انہوں نے رسول اکرمؐ کے جگر گوشے کو قتل کیا اور مَیں نے رسول اکرمؐ سے سْنا تھا کہ آپ نے فرمایا:’’بے شک حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں‘‘۔(ترمذی)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا:’’بے شک یہ فرشتہ آج رات زمین پر نازل ہوا، اس سے پہلے یہ کبھی زمین پر نہیں آیا تھا، اس نے اللہ تعالیٰ سے مجھے سلام کرنے اور مجھے یہ خوشخبری دینے کی اجازت طلب کی کہ فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہوں گے‘‘۔ (ترمذی)
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ حضرت حسینؓ بن علیؓ رسول اکرمؐ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ (بخاری)
ان تمام احادیث میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے فضائل ذکر کئے گئے ہیں اور انہی احادیث کے پیش ِ نظر ہم ان دونوں سے محبت کرتے اور اس محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں۔
حضرت حسینؓ کی شہادت کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلے ہی رسول اکرمؐ کو آگاہ کر دیا تھا۔
حضرت اْم سلمہؓ کا بیان ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریمؐ کے پاس حاضر ہوئے، اْس وقت حضرت حسینؓ میرے پاس تھے، اچانک وہ (حضرت حسینؓ ) رونے لگ گئے، مَیں نے انہیں چھوڑا تو وہ سیدھے آپ کے پاس چلے گئے جبرائیل نے پوچھا کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟اور آپ نے فرمایا: ہاں۔ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:
بے شک آپ کی اْمت انہیں عنقریب قتل کر دے گی اور اگر آپ چاہیں تو مَیں آپ کو اس سرزمین کی مٹی دکھلا دوں، جس پر انہیں قتل کیا جائے گا، پھر انہوں نے اْس کی مٹی آپ کو دکھلائی اور یہ وہ سرزمین تھی، جسے کربلاء کہا جاتا ہے۔ (احمد بسند حسن)
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ رسولؐاللہ نے فرمایا کہ جس نے حسنؓ و حسینؓ سے محبت کی، اْس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اْن سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے حضرت علی المرتضی اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اور فاطمہؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جوتم سے جنگ کرے میری اس سے جنگ ہے اور جو تم سے صلح رکھے میری اس سے صلح ہے۔ (احمد)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسولؐ اللہ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ سجدے میں گئے تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کود کر آپ کی پیٹھ پر سوار ہو گئے،جب آپ نے سجدہِ سے سر اْٹھایا تو ان دونوں کو پکڑ کر آرام سے نیچے بٹھا دیا۔ آپ دوبارہ سجدے میں گئے تو پھر وہ دونوں پہلے کی طرح کود کر آپ کی پیٹھ پر سوار ہو گئے۔حتیٰ کہ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے ان دونوں کو گود میں بٹھا لیا۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میَں نے اٹھ کر عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! کیا میَں انہیں ان کی ماں کے پاس چھوڑ آؤں؟ اسی اثناء میں بجلی چمکی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے اپنی ماں کے پاس پہنچنے تک بجلی کی روشنی قائم رہی۔
یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ کا احترام کرتے تھے اور حضرت علی المرتضیٰ کی طرح انہیں بھی عطیات دیتے تھے۔ایک دفعہ یمن سے کچھ کپڑا آیا جو حضرت عمرؓ نے فرزندان صحابہ میں تقسیم کر دیا، لیکن حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کو اس میں سے کوئی حصہ نہ دیا اور کہا کہ ان کپڑوں میں ان کے شایانِ شان کوئی کپڑا نہ تھا، پھر آپ نے یمن کے گورنر کو خط لکھ بھیجا اور اس نے حسنین کریمینؓ کے لئے نیا کپڑا تیار کرایا۔(ابو داؤد)
عزار بن حریث سے روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے سامنے سے حضرت امام حسینؓ کو آتے ہوئے دیکھا اور کہا: یہ آسمان والوں کو اہل زمین میں سے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔