شہید کربلا امام عالی مقام سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ

جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی مدینہ منورہ سے روانگی سے لیکر میدان کربلا اور شہادت تک کی مستند، متفقہ اورجامع تفصیلات
سیدنا حضرت حسینؓ نے حضور اکرم ؐ سے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علیؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی، جس کی وجہ سے آپ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت، رحمدلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے

تاریخ انسانی کی دو قربانیاں پوری تاریخ میں منفرد مقام اور نہایت عظمت و اہمیت کی حامل ہیں، ایک امام الانبیاء، سید المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ کے جد اعلیٰ حضرت ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ کی قربانی اور دوسری نواسہ رسولؐ، جگر گوشہ علیؓ و بتولؓ شہید کربلا حضرت امام حسینؓ کی قربانی۔ دونوں قربانیوں کا پس منظر غیبی اشارہ اورایک خواب تھا، دونوں نے سرتسلیم جھکا دیا اور یوں خواب کی تعبیر میں ایک عظیم قربانی وجود میں آئی۔ روایت کے مطابق جب سیدنا حسین ابنِ علیؓ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ کربلا کی جانب روانہ ہوئے اور روکنے والوں نے آپ کو روکنا چاہا، تو آپ نے تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی، ’’میں نے (اپنے نانا) رسول اکرمؐ کو خواب میں دیکھا ہے، آپ نے تاکید کے ساتھ مجھے ایک دینی فریضہ انجام دینے کا حکم دیا ہے، اب بہرحال میں یہ فریضہ انجام دوں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ وہ خواب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا، ابھی تک کسی کو نہیں بتایا، نہ بتائوں گا، یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزوجل سے جاملوں‘‘ (ابن جریر طبری 5/388، ابن کثیر/البدایہ والنہایہ 8/168)
اسی کے متعلق شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیلؑ
امام عالی مقام سیدنا حضرت حسین ؓ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جس کی مذمت ہر دور کے مؤرخین نے کی ،محرم الحرام کے حوالے سے اس خصوصی اشاعت میں امام عالی مقام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا واقعہ قارئین کی نذر ہے۔مؤرخ طبری لکھتے ہیں کہ عمار نے محمد باقر سے عرض کہ مجھے واقعہ شہادت ایسے بتائیے گویا میں وہیں تھا۔ انہوں نے فرمایا: حضرت معاویہؓ نے وفات پائی تو ولید بن عتبہ مدینے کا والی تھا۔ اس نے حسینؓ کی طرف پیغام بھیجا تاکہ یزید کے حق میں بیعت لے۔ آپ نے فرمایا: میرے ساتھ نرمی کیجئے اور سوچنے کی مہلت دیجئے۔ پھر آپ مکہ مکرمہ چلے گئے۔
امام عالی مقام کی خاندان نبوت کے ساتھ مدینہ سے روانگی
اہلِ کوفہ کے خطوط اور پیغام رساں آئے اور کہا کہ ہم ابھی تک آپ کے انتظار میں ہیں، ہم والی کوفہ کے پاس جمعہ ادا کرنے نہیں جاتے لہٰذا آپ ہمارے پاس آ جائیے۔ (الامم والملوک)حضرت حسینؓ4شعبان کو اپنے خاص اہلِ بیت کو لے کر مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور پیچھے رہ جانے والوں سے آپ نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ صبر کرنا اور سینہ کوبی آہ وفغاں نہ کرنا۔ جب آپ مکہ پہنچ گئے تو سلیمان ابن صروخزاعی نے سب شیعوں کو بلا کر کہا کہ حضرت حسینؓ مدینہ سے تشریف لا چکے ہیں۔ اگر تم امداد کر سکو تو ان کو یہاں بلا لو،ورنہ خیر، تمام شیعوں نے بیک آواز ہو کر جواب دیااے سلیمان! کیا شیعہ بھی بے وفائی کر سکتا ہے؟ ہم اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے، ان کی امداد اور اعداء کے شر کو دفع کرنے اور جان قربان کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر کوفیوں کی بیعت
اس کے بعد کوفہ والوں نے خطوط لکھے جو ۱۰ رمضان المبارک کو مکہ مکرمہ پہنچے ، اس دوران مزید ڈیڑھ دو سو خطوط کوفہ کے سرداروں نے بھیجے، جب اس قدر خطوط آنے لگے تو حضرت حسینؓ نے مسلم بن عقیل کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ کوفہ جائیے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے مطلع فرمائیے۔ اگر سچ ہو تو ہم ان کے پاس جائیں گے۔ حضرت مسلم بن عقیل کوفہ چلے گئے، وہاں ابن عوسجہ کے پاس پہنچے، جب اہل کوفہ کو ان کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ حضرت مسلم کے پاس پہنچے اور بارہ ہزار آدمیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مؤرخ طبری لکھتے ہیں کہ حضرت مسلم نے حضرت حسینؓ کی طرف خط لکھا اور اس میں بھی یہ تحریر فرمایا کہ اہلِ کوفہ میں سے بارہ ہزار نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ لہٰذا آپ آنے میں دیر نہ فرمائیے۔ اس خط بھیجنے کی خبر ہر گھر میں پہنچ گئی، ادھر یزید کے ہوا خواہوں میں سے ایک نعمان بن بشیر کی طرف آیا اور کہا کہ تو یا تو ضعیف ہے یا ضعیف بنا دیا گیا ہے۔ شہر تباہ ہو رہے ہیں اور تو مست ہو کر بیٹھا ہے۔ یہ سن کر نعمان بن بشیر نے کہا خدا تعالیٰ کی اطاعت میں ضعیف ہونا مجھے زیادہ عزیز ہے۔ اس سے کہ خدا کی معصیت میں قوی ہوجاؤں۔ مجھ سے اس پردے کی ہتک نہیں ہو سکتی جسے اللہ تعالیٰ نے ڈھانپ لیا ہے۔ جب یزید کو معلوم ہوا کہ والی کوفہ نعمان محبت اہل بیت کی وجہ سے سستی کر رہا ہے تو اس نے ابن زیاد کو خط لکھا کہ میں نے تجھے بصرے کے ساتھ ساتھ کوفے کا والی بنا دیا ہے اور کام یہ ہے کہ جہاں مسلم بن عقیل کو پائے قتل کردے۔ ابن زیادکوفہ میں آیا جس مجلس کے پاس سے گزرتا سلام کرتا۔ لوگ حسین بن علی ؓسمجھ کر وعلیک السلام یا ابن رسولؐ اللہ کہہ کر جواب دیتے تھے حتیٰ کہ وہ محل میں داخل ہو گیا او رایک جاسوس کو تین ہزار درہم دے کر مسلم بن عقیل کو تلاش کرنے بھیجا۔ اس وقت مسلم بن عقیل ہانی ابن عروہ کے گھر میں تھے۔ جاسوس نے تین ہزار درہم پیش کیے اور بیعت کرکے ابن زیاد کے پاس واپس آ گیا۔
خاندان اہل بیت کی محبت میں شہادت
حالات معلوم ہونے کے بعد ایک دن ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کے دربار میں نہ آنے کی وجہ پوچھی اس پر محمد بن اشعث ہانیؓ ابن عروہ کے گھر پر گیا اورکہا امیر ابن زیاد نے تجھے یاد کیا ہے اور تیری غیر حاضری کو برا محسوس کیا اور نہ آنے کی وجہ پوچھی ہے۔ ہانی گھوڑے پر سوار ہوئے اور عبیداللہ ابن زیاد کے دربار میں پہنچ گئے۔ ابن زیاد نے ہانیؓ سے پوچھا مسلم کہاں ہے؟ ہانیؓ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو عبیداللہ نے اس جاسوس کو سامنے کیا۔ ہانیؓ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ امیر کو نیک بنائے خدا کی قسم حضرت مسلم کو میں نے تو نہیں بلایا لیکن وہ خودبخود آئے ہیں۔ عبید اللہ نے کہا مسلم بن عقیل کو میرے سپرد کردو۔ ہانیؓ نے انکار کردیا اور کہا:
مال مانگو تو مال دیں گے، جان مانگو تو جان دیں گے
مگر یہ ہم سے نہ ہوگا کہ نبی کا جاہ و جلال دیں گے
میری جان چلی جائے تو جائے،میں مسلم کا ناخن بھی نہیں دکھا سکتا۔ ابن زیادہ نے جلاد سے کہا کہ اسے ہزار کوڑے لگاؤ جب پانچ سو کوڑے لگائے تو صحابی رسول ؐبے ہوش ہو کر گر پڑے، آخرکار شہید کردیے گئے۔
کوفیوں کی بے وفائی کی ابتداء
حضرت مسلم نے اپنی جماعت کو بلایا ، آپ کے پاس چار ہزار کوفی جمع ہو گئے۔ آپ نے جنگ کا نقشہ بنایا اور دارالامارات کو گھیر لیا۔ ان حالات کو دیکھ کر عبیداللہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اس نے کوفے کے رؤسا کی طرف آدمی بھیجے اور ان کو کہا دارالامارات پر چڑھ کر لوگوں کو ڈرائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شام تک پانچ سو باقی رہے ، جب اندھیرا ہوا تو تیس باقی رہے ، مسجد سے باہر نکلے تو سب بھاگ گئے۔ جب مسلم بن عقیل نے دیکھا کہ میں اکیلا رہ گیا ہوں تو ایک عورت کے گھر پناہ لی۔ اس عورت کا بیٹا محمد بن اشعث کا خادم تھا۔ اس نے محمد کو بتا دیا اور محمد بن اشعث نے عبیداللہ بن زیاد تک خبر پہنچا دی، اس نے عمرو بن حریث اور محمد بن اشعث کو تین سو سواروں سمیت روانہ کیاانہوں نے آ کر مکان کو گھیر لیا۔ جب مسلم بن عقیل نے دیکھا تو تلوار لے کر باہر نکلے اور جنگ شرو ع کردی۔ دشمنوں نے ان کی بہادری کے جوہر دیکھے تو ابن اشعث نے کہا تیرے لیے امان ہے۔ اپنے نفس کو قتل نہ کر۔ حضرت مسلم بن عقیل جدھر کا رخ کرتے صفایا کرتے جاتے۔ دشمن مقابلے کی تاب نہ لا کر مکانوں پر چڑھے اور تیروں سے وار کرنے لگے۔ ایک ظالم کا پتھر پیشانی پر لگا جس سے خون فوارے کی طرف نکلنا شروع ہو گیا۔ جب لڑائی سے عاجز آ گئے تو آپ کو خچر پر سوار کر کے ابن زیادہ کے پاس لایا گیا۔ ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ دوسری طرف حضرت حسینؓ کے پاس مسلم بن عقیل کا خط پہنچ گیا تھا۔
خیر خواہان کی امام عالی مقام کو کوفہ جانے سے روکنے کی کوششیں
اس خط کی وجہ سے حضرت حسینؓ مکہ سے روانہ ہونے لگے لیکن محبت اور ہمدردی رکھنے والے حضرات نے آپ کو اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ کا کوفہ روانہ ہونا خطرے سے خالی نہیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا مکہ نہ چھوڑیں، بیت اللہ سے دوری اختیار نہ کریں۔آپ کے والد محترم نے مکہ اور مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو ترجیح دی مگر آپ نے دیکھا کہ کوفہ والوں نے ان کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا۔ حتیٰ کہ شہید کرکے ہی چھوڑا۔ آپ کے بھائی حسن ؓ کو بھی کوفیوں نے لوٹا، قتل کرنا چاہا ، آخر زہر دے کر مار ڈالا۔ اب آپ کو ان پر ہر گز اعتماد نہیں کرنا چاہیے، نہ ان کی بیعت پر، نہ قسم پر، نہ ان کے خطوط اور پیغامات قابلِ اعتماد ہیں۔ یہ باتیں سن کر حضرت حسینؓ نے فرمایا: آپ کی باتیں درست ہیں مگر مسلم بن عقیل کا خط آگیا کہ بارہ ہزار بیعت کر چکے ہیں اور شرفاء کوفہ کے ڈیڑھ سو خطوط آ چکے ہیں، اب وہاں جانا مناسب ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا لوگ حج کے لیے آ رہے ہیں اور تم جارہے ہو۔ تم بھی حج میں شریک ہو جاؤ۔ حج کے بعد اگر ضروری سمجھو تو چلے جانا۔حضرت حسینؓ نے فرمایا : یہ معاملہ ایسا ہے کہ اب میں تاخیر نہیں کر سکتا مجھے فوراً ہی روانہ ہونا چاہیے۔ ابن عباسؓ نے فرمایا : چلو کم ازکم عورتوں اور بچوں کو تو ساتھ نہ لے جاؤ، کوفہ والوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ جو لوگ بیعت کرچکے ہیں اُن کا فرض تھا کہ پہلے یزید کے عامل کو کوفہ سے نکالتے، خزانہ پر قبضہ کرتے ، پھر آپ کو بلاتے جب کہ اس وقت ان کے پاس خزانہ بھی نہیں۔ عامل کو نکالنے کی جرات بھی نہیں تو یقینا کوفہ کا حاکم ان کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنے حسب منشا کام لے سکتا ہے۔ ان حالات پر غور کرنے سے آپ کی جان کو خطرہ نظر آتا ہے۔ ان کے علاوہ حضرت ابن عمرؓ، ابن زبیرؓ اور بہت سے افراد نے روکنا چاہا مگر حضرت حسینؓ نے کہا میں روانگی کی اطلاع کر چکا ہوں اب کسی طرح نہیں رُک سکتا۔ آخر۳ ذی الحجہ ۶۰ ھ پیر کے دن مکہ سے روانہ ہوئے جب کہ اسی دن کوفہ میں مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا تھا۔
کوفیوں کی بے وفائی سے لاعلم قافلہ حسینی
جب صفاح تک پہنچے تو فرزدق شاعر سے ملاقات ہوئی۔ فرزدق نے حضرت حسینؓ کو روک لیااور کہا: خدا آپ کا مقصد پورا کرے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کوفہ کے لوگوں کا حال بیان فرمائیے، فرزدق نے کہا: شکر کہ آپؓ نے ایک واقف کار سے سوال کیاہے تو سنئے! لوگوں کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں یزید کے ساتھ، قضا آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا: ’’آپ نے سچ کہا ہے، بلاشبہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘یہ کہہ کرحضرت حسینؓ نے سواری کو چلایا اور فرمایا’’السلام علیک‘‘ ۔
راستے میں عبداللہ بن ملیع سے ملاقات ہوئی، اس نے بھی مکہ کی طرف واپس چلنے کے لیے قسمیں دیں اور سمجھایا کہ آپؓ عراقیوں کے فریب میں نہ آئیں۔ مقام حاجر میں پہنچ کر قیس بن میسر کو اور مزید کچھ آگے جا کر رضاعی بھائی عبداللہ بقطر کو اہل کوفہ کے پاس خط دے کر بھیجا کہ ہم قریب پہنچ گئے ہیں، ہمارا انتظار کرو۔ لیکن یہ دونوں حضرات قادسیہ میں ابن زیاد کے لشکر کے ہاتھوں گرفتار ہو کر خطوط کے ساتھ ابن زیاد کے سامنے پیش کیے گئے، اس نے کہا: ان کو قصر امارت کی چھت پر لے جاؤ او راوپر سے نیچے گرا دو۔ چنانچہ اس طرح یہ دونوں شہید کر دیے گئے۔
ان حالات سے لاعلم حسینی قافلہ سرگرم سفر تھا اور لوگ جوق در جوق شریک ہو کر قافلے کی تعداد کو بڑھاتے رہے مگر جب شعلبہ میں پہنچے تو بکراسدی کوفے سے آ رہا تھا، سیدنا حسین ؓ نے اس سے کوفہ کے حالات خاص طور پر مسلم بن عقیل کے بارے میں پوچھا۔ اس نے آبدیدہ ہو کر عرض کیا کہ حضرت مسلم بن عقیل تو ۳ ذی الحجہ کو شہید کر دیے گئے ہیں اور کوفی بے وفائی کرکے فوج یزید میں شامل ہو چکے ہیں۔ آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور خیمے کی طرف چلے آئے۔ آپؓ کے بعض ساتھیوں نے عرض کیا: اب واپس چلنا چاہیے کوفہ میں کوئی آپ کا مددگار اور طرفدار نہیں ہے بلکہ ہمیں آپؓ کی تکلیف کا خوف ہے۔ یہ سن کر مسلم بن عقیل کے بیٹے جوش میں آ گئے اور کہنے لگے: خدا کی قسم ہم بدلہ لیے بغیر واپس نہ جائیں گے یا پھر شہید ہو جائیں گے۔
مسلم بن عقیلؓ اور ہانی ابن عروہؓ کی شہادت کی خبر سن کر دوسرے قبائل کے لوگ آہستہ آہستہ جدا ہونا شروع ہو گئے اور صرف خاص اپنے قبیلے اور خاندان کے ۷۰ یا ۸۰ افراد باقی رہ گئے۔
موت کس کے زیادہ قریب ہے؟
عبیداللہ زیاد نے عمر ابن سعد کو چار ہزار فوج دے کر اور حربن یزید تمیمی کو ایک ہزار فوج دے کر سیدنا حسینؓ کا سراغ لگانے کے لیے مقرر کر دیا۔ حضرت حسینؓ شش و پنج کے عالم میں مقام اشراف سے آگے بڑھے تو حربن یزید ایک ہزار فوج کے ساتھ سامنے آیا۔آپؓ نے فرمایا: اے لوگو! میری معذرت خدا اور تمہاری طرف ہے۔ میں تمہارے پاس تمہارے خطوط کے بغیر نہیں آیا۔ اگر تم وعدوں پر سچے ہو تو میں تمہارے شہر آتا ہوں اور اگر تمہیں پسند نہیں تو میں جہاں سے آیا ہوں وہیں چلا جاؤں گا۔ حر نے کہا: ہمیں ابن زیادہ کا حکم ہے کہ آپ کے ساتھ رہیں اور گرفتار کرکے ابن زیاد کے پاس لے چلیں۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا: موت تیرے زیادہ قریب ہے۔ واپس ہونے کا ارادہ کیا تو حر واپسی کے راستے میں اپنی فوج لے کر کھڑا ہو گیا۔ (الامم والملوک۳/۳۰۶)
دشمنوں کو تین باتوں کی پیشکش
حضرت حسینؓ نے شمال کی جانب کوچ کیا تو قادسیہ میں عمر ابن سعد چار ہزار فوج کے ساتھ مقیم ہے۔ اس لیے واپس پلٹ کر دس میل چلنے کے بعد محرم ۶۱ھ کربلا میں آ کر ٹھہر گئے۔ دوسرے دن عمر ابن سعد بھی سراغ لگاتا ہوا کربلا میں پہنچ گیا۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا: میں تین باتیں پیش کرتا ہوں، ان تین میں سے جس کو چاہو میرے لیے منظور کرلو۔
(۱)۔ جس طرف سے میں آیا ہوں اسی طرف واپس جانے دو تاکہ میں عبادت الٰہی میں مصروف ہو جاؤں۔
(۲) مجھے کسی سرحد کی طرف جانے دو تاکہ وہاں کفار سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں۔
(۳) مجھے سیدھا یزید کے پاس دمشق کی جانب جانے دو تاکہ میں براہ راست اس سے اپنا معاملہ اسی طرح طے کر لوں جیسے میرے بڑے بھائی حضرت حسنؓ نے امیر معاویہ ؓسے طے کیا تھا۔
ابن زیاد کی امان سے خدا کی امان بہتر ہے
عمر ابن سعد یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہا میں ابھی ابن زیاد کو اطلاع دیتا ہوں۔ امید ہے کہ وہ ان میں سے کسی بات کو منظور کر لے گا۔ ابن زیاد بھی ابن سعد کا خط پڑھ کر بہت خوش ہوا اور کہا حسینؓ نے وہ بات پیش کی ہے جس سے فتنہ کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا۔ لیکن قریب بیٹھے ہوئے بدبخت شمر ذی الجوشن نے کہا: اگر حسینؓ یزید کے پاس چلے گئے تو ان کے مقابلے میں تیری کوئی عزت و قدر باقی نہیں رہے گی اور وہ تجھ سے زیادہ مرتبہ حاصل کر لیں گے۔ لہٰذا ابن زیادہ نے جواب دیا تینوں باتیں اس طرح منظور نہیں ہو سکتیں۔ یا تو حسینؓ کو میرے پاس لاؤ ورنہ جنگ کرکے ان کا سر کاٹ کے میرے پاس بھیج دو۔ اور شمر سے کہا مجھے ابن سعد پر منافقت کا شبہ ہے اور تم سے بہتر اس کام کے لیے دوسرا کوئی شخص نہیں لہٰذا تم جاؤ اور جاتے ہی لڑائی چھیڑ دو اور کام جلدی ختم کردو۔ شمر نے کہا: میری ایک شرط ہے ،وہ یہ کہ میری بہن ام البنین بنت حرام حضرت علیؓ کی بیوی تھی جس سے حضرت علیؓ کے چار بیٹے عبید اللہ، جعفر عثمان، عباس پیدا ہوئے جو میرے بھانجے ہیں، ان چاروں کی جان کی امان دے دیں۔ ابن زیاد نے امان نامہ لکھ کر مہر لگا دی۔ جمعرات ۹ محرم کو شمر بھی کربلا میں پہنچ گیا۔ رات کو ابن زیاد کا حکم پہنچا کہ اسی وقت پانی پر قبضہ کر لو اور حسین بن علیؓ اور ان کے ساتھیوں کے لیے بند کردو۔ (تاریخ طبری۳/۳۱۱)عمر ابن سعد نے عمرو بن الحجاج کو پانچ سو سوار دے کر ساحل فرات پر متعین کردیا، حضرت حسینؓ نے اپنے بھائی عباس بن علی ؓکو پچاس آدمیوں کے ہمراہ پانی لینے کو بھیجا مگر ان ظالموں نے پانی نہ لینے دیا۔ ۱۰ محرم کی صبح کو شمر اور ابن سعد نے صفوف لشکر میدان میں قائم کیں، حضرت حسینؓ نے بھی اپنے ساتھیوں کو مناسب ہدایت کے ساتھ متعین کیا، شمر نے اپنے بھانجوں عبید اللہ جعفر عثمان کو بلا کر امان کی پیشکش کی تو انہوں نے کہا ابن زیاد کی امان سے خدا کی امان بہتر ہے۔
امام عالی مقام کی درد ناک تقریر
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اونٹ پر سوار ہو کر کوفی لشکر کے سامنے آئے اور بلند آواز سے فصیح و بلیغ اور لاجواب تقریر شروع کی: ’’تم میں سے ہر شخص مجھے جانتا ہے، جو نہیں جانتا وہ بھی آگاہ ہو جائے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ اور علی کرم اللہ وجہہ کا بیٹا ہوں۔ حضرت فاطمہؓ میری ماں اور جعفر طیار میرے چچا تھے۔ مجھے اور میرے بھائی کو رسول اللہ ﷺ نے نوجوانانِ جنت کا سردار بتایا ہے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا بھی باقی ہوتا توتمام عیسائی اس گدھے کی پرورش اور نگہداشت میں مصروف رہتے۔ تم کیسے مسلمان اور کیسے امتی ہو کہ اپنے رسولؐ کے نواسے کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ نہ تم کو خدا کا خوف ہے نہ رسول اکرم ؐکی شرم۔ میں مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پڑا تھا تم نے مجھے وہاں نہ رہنے دیا ، پھر مکہ معظمہ میں مصروف عبادت تھا ، تم کوفیوں نے مجھے وہاں بھی چین نہ لینے دیا بلکہ مسلسل خطوط بھیجے کہ ہم تم کو امامت کا حقدار سمجھتے ہیں اور بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ جب تمہارے بلانے پر یہاں آیا تو تم مجھ سے برگشتہ ہو گئے، اب بھی اگر تم میری مدد کر سکو تو مجھے قتل نہ کرکے آزاد چھوڑ دو تاکہ میں مکہ یا مدینہ میں جا کر مصروف عبادت ہو جاؤں۔‘‘ سب خاموش رہے، کسی نے جواب نہ دیا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’خدا کا شکر ہے کہ میں نے تم پر حجت پوری کردی۔‘‘ پھر ایک ایک نام لے کر آواز دی: ’’ اے ابن شبث بن ربیعی، اے حجاج ابن الحسن، اے قیس بن الاشعث ، اے حربن یزید تمیمی! تم نے مجھ کو بالاصرار یہاں نہیں بلوایا تھا؟‘‘ یہ سن کر سب نے کہا: ہم نے آپ کو کوئی خط نہیں لکھا اور نہ بلایا ہے۔
معرکہ حق و باطل کا آغاز
اس کے بعد حضرت حسینؓ گھوڑے پر سوار ہو کر لڑائی کے لیے تیار ہو گئے۔ جنگ شروع ہوئی تو حر بن یزید تمیمی اس انداز سے کہ جیسے کوئی حملہ آور ہوتا ہے اپنی ڈھال سامنے کر کے اور گھوڑا دوڑا کر حضرت حسینؓ کے پاس آیا اور ڈھال پھینک دی اور کہا: میں وہ شخص ہوں جس نے آپ کو روک کر واپس نہ جانے دیا۔ میں اپنی اس خطا کی تلافی میں آپ کی طرف سے کوفیوں کا مقابلہ کروں گا۔ حضرت حسینؓ بہت خوش ہوئے اور اس کو دعا دی۔ جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت حسینؓ کے ہمراہیوں کی تعداد کتنی تھی اس بارے میں کوئی بات بھی یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی البتہ بعض روایات کی بناء پر زیادہ سے زیادہ تعداد دو سو چالیس کہی جا سکتی ہے۔
حضرت حسینؓ کے ساتھیوں نے آل ابی طالب کو اس وقت تک میدان میں نہ نکلنے دیا جب تک کہ وہ سب ایک ایک کرکے شہید نہ ہو گئے۔ پھر یکے بعد دیگرے عبداللہ بن مسلم بن عقیل اور عبداللہ بن عقیل ، عبدالرحمن ، جعفر بن عقیل میدان میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن حسن نے میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھائے۔ ان کی مدد کے لیے فیروز آئے، انہوں نے ایسے ہاتھ دکھائے کہ ایک سو تیس کو تیروں سے اور بیس کو تلوار سے قتل کیا۔ آخرکار لڑتے لڑتے فیروز اور عبداللہ بن حسن بھی شہید ہو گئے۔ پھر انہی کی اتباع میں ابوبکر ابن الحسن و عمر بن الحسن داد شجاعت دینے میدان میں آئے اور شہید ہوئے۔ حضرت حسنؓ کے چوتھے صاحبزادے حضرت قاسم سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اجازت سے میدان میں آئے اور ایسا حملہ کیا کہ دشمنوں کے ہوش اُڑ گئے۔
بہادر نامور جو جو مقابل ہو کے آتے تھے
وہ اپنا ہاتھ اپنی زندگی سے دھو کے جاتے تھے
ارزاق نامی پہلوان حضرت قاسم کو مقابلہ پر دیکھ کر کہنے لگا، ایک لڑکے کے سامنے کیسے جاؤں؟ ہاں میں اپنے بیٹے کو بھیجتا ہوں۔ چنانچہ اس کا جو بیٹا بھی مقابلے پر آیا مارا گیا، آخر میں خود نکلا۔ قاسم بن حسن نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ تلوار زرہ کاٹ کر پار نکل گئی۔ ان کے بعد محمد بن علی، عثمان بن علی، عبداللہ بن علی، جعفر بن علی، عباس بن علی نے جام شہادت نوش فرمایا، پھر علی اکبر نے دشمنوں پر پے درپے حملے کر کے چھکے چھڑا دیے اور خود بھی شہید ہو کر اپنے ساتھیوں سے جا ملے۔
میدان کربلامیں جانوں کا نذرانہ
اب حضرت حسینؓ تنہا باقی رہ گئے، لیکن آپ نے اپنے سامنے قریب اعزہ و اقرباء کو کٹتے دیکھ کر جس ہمت، جرأت و استقامت ، جواں مردی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت حسینؓ نے پہلے گھر والوں کو صبر کی تلقین فرمائی پھر مردانہ وار میدان جنگ میں نکل آئے اور اس انداز سے مخالفین پر حملے کیے کہ شمر ذی الجوشن اور ابن سعد آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے ، آج تک ہم نے ایسا بہادر اور جری انسان نہیں دیکھا، جب آپؓ کا گھوڑا مر گیا تو پیدل لڑنا شروع کردیا، کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ حسینؓ میرے ہاتھوں شہید ہوں بلکہ ہر کوئی مقابلے سے بچتا تھا اور طرح دیتا تھا۔ آخر میں شمر نے چھ افراد کو ساتھ لیکر حملہ کیا، ایک بدبخت نے تلوار کے وار سے بایاں ہاتھ کاٹ دیا۔ آپؓ نے جوابی وار کرنا چاہا لیکن دایاں ہاتھ بھی زخمی ہونے کی وجہ سے تلوار نہ اٹھا سکے۔ پیچھے سے سنان ابن انس نخعی نے نیزہ مارا جو شکم مبارک سے پار ہو گیا۔ آپ ؓ نیچے گر گئے۔ اس بدبخت نے نیزہ کھینچا تو اس کے ساتھ ہی آپ کی روح بھی پرواز کر گئی۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ایک روایت کے موافق آپؓ کے جسم مبارک پر ۳۳ زخم نیزوں کے، ۴۳ زخم تلواروں سے لگے جب کہ تیروں کے زخم اس کے علاوہ تھے۔ (تاریخ اسلام۵۲۷)حضرت حسینؓ کا سر مبارک یزید کے سامنے لایا گیا تو وہ زار و قطار رونے لگا اور اس کے گھر میں کہرام مچ گیا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button